ہمگام اداریہ :
امریکہ اور طالبان کے مابین دو دہائیوں سے جاری لڑائی ختم کرنے کے لیے انتیس فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ‘افغان امن’ کے نام پر معاہدے کے مسودے پر دستخط کئے گئے۔
یہ معاہدہ براہ راست طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا گیا ہے۔ اس دستخطی پروگرام میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی اس کے علاوہ ہندوستان کو گو کہ اس پورے عمل سے دور رکھا گیا تھا لیکن ہندوستان کے سفیر کو مدعو کیا گیاتھا جو کہ محض ایک مبصر کے طور پر شرکت کررہے تھے۔
مبصرین اس معاہدے کی ساخت پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں بنیادی طور پر اس دن دو معاہدے ہوئے، ایک کو امریکی انتظامیہ اور طالبان نے خفیہ رکھا ہے۔ خفیہ رکھے گئے اس معاہدے میں تمام شقیں فوجی نوعیت کی ہیں جسے امریکی عوام کو بھی دکھانے پر ممانعت کی گئی ہے۔ سی آئی اے کے سابقہ ڈائریکٹر اور امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے امریکی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاہدے کو صرف امریکی ایوان نمائندگان دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ اس پر کوئی بھی شخص رسائی کا حق نہیں رکھتا۔ دوسرے حصے کے معاہدے کو کچھ دن بعد منظر عام پر لایا گیا تھا۔
امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ طویل گفت و شنید اور خفیہ مزاکرات پر گذشتہ سال بھی تقریبا اتفاق رائے ہوچکا تھا۔
طالبان کے ایک وفد نے امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کے لیے امریکہ کا دورہ کیا تھا لیکن اسی اثنا میں افغانستان کابل میں ایک امریکی کنٹریکٹر پر حملہ ہوا تھا جسے بہانا بنا کر امریکہ نے مذاکرات کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کچھ عرصہ کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار رہے لیکن پھر طالبان نے اپنی طرف سے دوبارہ پیشکش کی اور یوں امریکی ایک بار پھر بات چیت پر رضا مند ہوگئے۔
کچھ عرصے سے مسلسل پاکستان کی معاشی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے، اسلام آباد کی چین کے ساتھ رشتوں میں سرد مہری محسوس کی جارہی ہے، سی پیک اور اس سے جڑے بھاری رقم کے قرضے کو لیکر پروجیکٹس پر چند حکومتی حلقوں کے درمیان خدشات اور چین کی سی پیک کے کام میں سست روی کے عنصر کو زائل کرنے کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک ذہن میں یہ جاننے کا تجسس زور پکڑ رہا ہے کہ کیا افغانستان میں دیرپا امن ممکن ہے؟
کیا امریکہ اور وہ طالبان جنہیں عمومی طور پر پاکستان کی پراکسی کے طور پر سمجھا جاتا ہے امن معاہدے کو برقرار کھ پائیں گے؟
کیا اب جنگ کا میدان افغانستان سے ہٹ کر پاکستان کی دہلیز تک پہنچ رہا ہے؟
اپنی قومی آزادی کیلئے بلوچ تحریک خطے کی جنگوں سے کیا فائدہ یا نقصان اٹھاچکی ہے اور آنے والے عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی میں بلوچ کہاں کھڑے ہیں، یہ جنگیں بلوچ کو لے ڈوبیں گی یا بلوچ اس سے اپنا قومی فائدہ حاصل کرسکے گا؟
اس جنگ کو جیتنے والے کھلاڑیوں کے بیچ مقابلہ سخت ہے اور شائد اب یہ جنگ اپنا حقیقی رخ اختیار کرنے جارہا ہے۔ اس جنگ کو پاکستان نے جینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے پاکستان شروع دن سے امریکہ کے ساتھ دوہرا کھیل کھیل رہا ہے امریکہ سے اربوں ڈالر لیکر طالبان کو اسلحہ اور تربیت ومحفوظ ٹھکانے فراہم کئے اور اب انہی طالبان کے ذریعے اپنے من چاہے مطالبات پر مذاکرات کروا رہا ہے۔
امریکہ ایک حد تک بے وقوف بنتا رہا، امریکہ کے سابقہ صدور جارج ڈبلیو بش اور باراک حسین اوبامہ نے تینتیس ارب ڈالر پاکستان کو فوجی و سویلین امداد کی مد میں دیے جسے ٹرمپ نے بے وقوفانہ عمل قرار دیا لیکن اب ایسے لگتا ہے طالبان کے ساتھ ڈیل کرکے صدر ٹرمپ خود صدر بش اور اوبامہ سے بڑھ کر بے وقوفی کررہے ہیں۔
امریکی صدر کو شائد پاکستانی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کے وہ جملے یاد نہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سویت یونین کو شکست دی اور اسی امریکہ ہی کی مدد سے امریکہ کو شکست دیگا۔
پاکستان کا رویہ اور کردار ہمیشہ بھیانک و دھوکہ بازی کا رہا ہے۔افغانستان کے صدارتی انتخابات میں جیت پر خاموش رہنے والے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ طالبان کے مابین معاہدے کے چند ہی گھنٹے کے دوران مبارکباد دینےکے ٹویٹ کئے۔
پاکستان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے لیے دباؤ سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان طالبان کی مذاکرات کو امریکی امداد لینے کے لیے استعمال کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یعنی اب وہ امریکہ سے یہ کہے گا کہ چونکہ طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کردیا گیاہے لہذا اب پاکستان کی امداد بحال کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اس امداد کو طالبان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کرکے کابل حکومت کو گرانے کی پوری پوری کوششوں میں لگ جائے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی اب افغانستان کے انتخابات کو لے کر سیاسی انتشار کو ہوا دینے کے لیے سرگرم ہوچکا ہے، 6 مارچ کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو اور دوسرے حزب اختلاف کے کابل میں ایک تعزیتی اجتماع پر حملے اور اندھا دہند فائرنگ کے نتیجے میں 37 بے گناہ شہریوں کی جان لے لی اور بہت سوں کو زخمی کردیا۔
افغانستان کے ان حالات میں بلوچ قیادت کے لیے ناگزیر امر یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی اختلافات کو ایک سائڈ پر رکھ کر بلوچ تحریک و بلوچ قومی شناخت کو لاحق خطرات اور ممکنہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے فی الفور صف بندی کریں۔
بلوچستان اس خطے کا ایک اہم ترین بحری، بری اور فضائی گزر گاہ ہے۔ ہماری قیادت نے اپنی کمزوریوں اور نا اتفاقیوں سے اپنی اس اہم سرزمین کو ہمیشہ پنجابی کے لیے ترنوالہ بنایا ہے۔ ہماری سرزمین اور سرحدات کو پنجاب نے عالمی برادری کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا لیکن بلوچ قوم خود ستر سال بعد بھی اپنی قومی شناخت سے محروم ہے۔
اب بھی اگر بلوچوں نے کوئی سنجیدہ فیصلے نہیں لیے تو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے گم ہوکر رہ جائیں گے اور اگر قومی بیانیہ و قومی سرحدات، شناخت اور بقا کے لیے مخلصانہ کوششیں کیں تو خطے میں حالات کسی بھی جانب کروٹ بدل لیں بلوچ قومی کاز کو کوئی ملک بھی نظر انداز نہیں کرسکے گا۔