کابل(ہمگام نیوز) افغان دارالحکومت کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے میں چار طالبان عسکریت پسند ہسپانوی سفارت خانے کے گیسٹ ہاؤس میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کی دراندازی کے واقعے میں دو ہسپانوی سکیورٹی گارڈز سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کئی گھنٹوں بعد افغان سکیورٹی دستوں نے ہسپانوی ایمبیسی سے ملحقہ گیسٹ ہاؤس میں گھسے ہوئے چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گیسٹ ہاؤس کا محاصرہ بھی ختم کروا لیا گیا ہے۔ اِس حملے میں دو ہسپانوی سکیورٹی گارڈز کے ساتھ ساتھ چار افعان پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
گیسٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے لیے عسکریت پسندوں نے کار بم کا سہارا بھی لیا اور اُس کے پھٹنے سے اٹھنے والے دھوئیں میں عسکریت پسند گیسٹ ہاؤس کے اندر گھس گئے۔ کل جمعے کے روز طالبان نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس حملے کا نشانہ غیر ملکی ’حملہ آوروں‘ کا ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔
عسکریت پسندوں نے یہ حملہ جمعہ کی شام کیا تھا۔ عسکریت پسندوں اور افغان سکیورٹی دستوں کے درمیان کئی گھنٹے تک وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اِس حملے میں نو افغان شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران سینتالیس افراد کو، جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے، قریبی عمارتوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔ کابل کے تفتیشی ادارے کے سربراہ فریدون عبیدی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی۔ ان عسکریت پسندوں کو افغان سکیورٹی فورسز کے کمانڈوز نے ہفتے کی علی الصباح ہلاک کر کے صورت حال کو اپنے کنٹرول میں کر لیا۔
اُدھر ہسپانوی دار الحکومت میڈرڈ میں حکومت نے کابل میں سفارت خانے پر حملے کے دوران دو ہسپانوی پولیس گارڈز کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ اِس حملے کے شروع ہونے پر یہی بتایا گیا کہ شدت پسندوں نے ہسپانوی سفارت خانے پر حملہ کیا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک گیسٹ ہاؤس پر دھاوا بولا تھا۔ ہسپانوی وزیراعظم ماریانو راخوئے نے بھی اپنے بیان میں ایمبیسی کے قریب واقع گیسٹ ہاؤس پر حملے کا بتایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ گیسٹ ہاؤس کو ہسپانوی سفارت خانے کے احاطے کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔
ہسپانوی سفارتخانہ کابل کے انتہائی محفوظ علاقے شیرپور میں واقع ہے۔ اِسی علاقے میں کئی بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ افغان حکومت کے کئی اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کی رہائش گاہیں بھی اسی بستی میں ہیں۔ ان حکومتی اہلکاروں میں افغانستان کے متنازعہ جنگی سردار اور موجودہ اول نائب صدر عبدالرشید دوستم بھی شامل ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب افغان صدر اشرف غنی نے خوش امیدی کے ساتھ کہا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ اگلے ہفتوں میں شروع ہو نے کا امکان ہے۔