واشنگٹن (ہمگام نیوز ویب ڈیسک ) اطلاعات کے مطابق افغانستان میں تعینات اعلی امریکی فوجی جنرل مسٹر جون نیکلسن نے قندھار میں افغان عہدے داران کے ساتھ بات چیت کی تھی جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جنرل نیکلسن کا کہنا کہ اُن کا ملک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے “تیار” ہے۔ یہ امر واشنگٹن کے اُس پرانے موقف میں واضح تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کسی بھی امن عمل کی قیادت کا اختیار کابل حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔افغانستان میں موجود وسیع فوجی اتحاد (نیٹو) کی فورسز نے پیر کے روز اپنے کمانڈر کے اعلان سے متعلق اِن رپورٹوں کی تردید کی ہے کہ امریکا تحریکِ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہے۔نیکلسن کا مزید کہنا تھا کہ “امریکا کسی طور بھی افغان عوام یا حکومت کا متبادل نہیں ہے”۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اتوار کے روز دعوہ کیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے سینئر سفارت کاروں کو آگاہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری جانب افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل مارٹن اوڈونل کے مطابق امریکا امن عمل کو ممکن بنانے کے لیے تمام راستے دریافت کرے گا البتہ اس عمل کی قیادت افغانستان کے پاس ہی رہے گی۔امریکی جنرل نیکلسن نے باور کرایا کہ اُن کے تبصرے کو میڈیا نے رد و بدل کر کے پیش کیا ہے۔ انہوں نے صرف اُس بات کو دُہرایا تھا جو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جون میں کہہ چکے ہیں۔ پومپیو کی بات کا حاصل یہ تھا کہ امریکہ “ممکنہ امن بات چیت” ، اُس کو آسان بنانے اور اس میں شرکت کو “سپورٹ” کرنے کے لیے تیار ہے۔