Homeآرٹیکلز’’انارک کا گواڑخ‘‘ تحریر : عالیان یوسف

’’انارک کا گواڑخ‘‘ تحریر : عالیان یوسف

گول مٹول چہرہ ‘چھوٹا قد بھورے سیدے لمبے بالوں والے امیر الملک کا نام پتہ جمال کس نے رکھا کہ نام سنتے ہی کسی فکری انقلابی اور حریت پسند سے زیادہ ذہن میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے کسی ادیب کا گمان گزرتا۔بہر حال یہ نام بھی نگینہ کی طرح خوبصورتی سے فٹ بیٹھ گیا کہ جو کوئی فکری ساتھی پہاڑی ساتھیوں سے ملاقات کے بعد واپسی پر شکل وشبہاہت بیان کرکے پوچھتا کہ بھلا جمال کون؟ جس سے میری ملاقات ہوئی توا میر کا خوبصورت چہرہ جمالیاتی طرز سے بھر پور شاعرانہ گفتگو‘تخیل سے حقیقت کا روپ دھارلیتا۔یہی تو ہے امیر الملک عرف جمال عرف گہوارو۔جس کے چھوٹے قدمگر بلند خیالوں سے خوفزدہ ہوکرقوم وطن اور آزادی کے جذبوں سے ناآشنا تنگ نظر خیالات کے علاقائی اورقبضہ گیریت اوراستحصال کو دین وایمان بنانے والے ریاستی مخالفین نے راستے سے ہٹانے کیلئے اپنی پوری ریاستی طاقت جھونک دی مگر شکست ان کا نصیب اور فتح کا تغمہ امیر نے اپنے سینے پر سجا دیا۔
ہمیشہ خیالات کی دنیا میں گم مگر فعالیت پر رہنے والا امیر الملک ایک کم سن فلاسفر لگتا۔لگتا کیا تھا بھی فلاسفر۔نئے زاویوں سے سوچنا ‘لکھنا ‘ہم جیسے فکری الجھنوں کے شکار اور بکھرے خیال والے دوستوں کی باتیں سن کر ’’جی اوخواجہ ‘‘ آپ صحیح کہتے ہو مگر ’’پین ہیت اس ام راے ‘‘ سے اپنی بات کا آغاز کرکے خوبصورتی سے نئے زاویئے سے اپنی بات رکھنے والا ‘بجائے اپنی بات تھونپے اور دوسروں کے خیالات کی ناقصیت کا احساس دلائے بغیر دلائل ومنطق سے اپنی رائے منوانے والا‘اپنی رائے کی پذیرائی کی گھمنڈ میں نہ آنے والا‘دوستوں کی محفلوں میں عاجزی سے اپنے دونوں زانوں کے گرد گھیرا باندھ کر فقیرانہ انداز میں آہستہ آہستہ سرہلانے والا امیر الملک اپنے فکری دوستوں ‘رشتہ داروں‘ جان پہچان کے حلقوں اورسب سے بڑھ کر نظریاتی مخالفین کیلئے ایک مشکل شخص رہا۔مشکل اس صورت میں کہ بلوچ تحریک آزادی اور امیر الملک کے ذاتی دشمن ہمیشہ اس کی سادہ مزاج شخصیت کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دیتے اوراسے آسان لقمہ سمجھتے رہے اورامیر ہر بار سادہ مزاجی کے پیراہن میں چھپے پختہ فکر امیر الملک کے ذریعے انہیں ناکام بناتا رہا۔
مثلاً امیر کی فکر وشخصیت کا سطحی جائزہ لینے والوں کے شاہدوہم وگمان میں بھی نہ ہو کہ امیر شہری آسائشوں کوچھوڑ کر مسلح نظریاتی زیر زمین تنظیم کا انتخاب کرکے پرخطر راستے پر مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے نقش پاء کے ایسے گہرے نشانات چھوڑیں گے کہ مخالفین کیلئے قدموں کے یہ نشانات ہر قدم پر رکاوٹ اورپیروکاروں کیلئے مشعل راہ بن جائیں گے۔تقریباً 10 بارہ سال پہلے امیر سے پہلی ملاقات میں خود میر ے ذہن میں بھی اس بات کا شائبہ تک نہ تھا کہ کولون کی خوشبو سے مطعر ہلکے آسمانی رنگ کے نفیس لباس میں ملبوس یہ نوخیز نوجوان آگے جا کر اپنے فکری ونظریاتی اصولوں پر کاربند ہوکر بلوچ مزاحمتی تحریک میں نامور مقام پائے گااوران کی جدوجہد سے سخت جانی سے ‘فکری پختگی سے ‘علم ودانش کے نام نہاد دعویداروں کا مصنوعی لباس اترجائیگا۔امیر کے وہ رشتہ دار جن کے ہاں قوم دوستی وطن دوستی آزادی اورنظریات کی اپنی اپنی تشریحات ہیں۔وسیع معنوں کے الفاظ اورانتہائی محدود ومن پسند تشریحات وتقاضے جن کے ہاں انقلابی فکر ریمورٹ کنٹرولڈ‘آزادانہ سوچ پا بہ زنجیر شاعرانہ تخیل لگام زدہ تنگ نظر قبائلیت وذہنیت باعث فخر‘بھلا ایسے ماحول سے کوئی بغاوت نہ کرے تواس غلامی کے آگے سجدہ ریز مشہور ومقبول غلاموں کا پردہ کیسے فاش ہو۔یہ چاہتے تھے کہ امیر ان جیسا بنے‘انقلاب اور سماجی تبدیلی کے بجائے قبائلی جی حضوری کی زندگی قبول کرنے پر آمادہ ہو۔قبائلی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے نظریاتی قد کو اپنے جسمانی قد کے مطابق رکھے۔اڑنے کی کوشش نہ کرے‘ ان دیکھی زنجیروں کو توڑنے کے دعوے کرنے کی بجائے انہی کی طرح سنہرے پنجروں کاقیدی بن کر اپنے صیاد کی تعریفیں کرتے رہے۔یہیں رہے توتک میں‘انارک میں ہماری نظروں کے سامنے‘ہمارا پیروکار بن کر۔ایسے لوگ پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ امیر جیسی لمبی اڑان کا نصیب پانے والے ان جیسے قیدیوں کو آزاد فضاء میں اڑتا دیکھنے کیلئے اپنی جان سے گزرجاتے ہیں
اس پہلی ملاقات کے بعد سینکڑوں ملاقاتیں ‘درجنوں دفعہ گزرگاہوں میں ہم سفری اورسینکڑوں نشستوں میں صحبت رہی‘لیکن میری شخصی کم فہمی اور ناشناسی کا وہی عالم رہا میں ویسے بھی دونوں کی رفاقت وقربت میں ناپ تول کاقائل نہیں رہااورماہر بھی نہیں‘پتہ نہیں اس رویئے کو کیا نام دیاجائے۔یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کہ اپنے سے عمر میں معمولی فرق کے دوستوں کے ساتھ نبھانے کا اسلوب نہیں آتا۔اس لئے بعد ازفراق وصل کے دنوں کو یاد کرکے آہ سرد نکالنا یا تنہاہی میں آنسو بہانا بھی ہنر قر ارپاتا ہے ۔بلوچ قومی فوج کے ترجمان کے مطابق امیر 2006سے زیر زمین سیاست کے میدان میں خدمات سرانجام دیتے رہے اوربہت سے معرکوں میں دلیرانہ انداز میں کارکردگی دکھائی۔اس حساب سے امیر کی شہادت کے روز یعنی 7اپریل 2014تک آٹھ سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ تنظیم نے ان کی عسکری صلاحیتوں کا اعتراف کرکے انہیں ’’پھلین شہید‘‘ کانام دیا۔یقیناً اس کی عسکری صلاحیتوں اورمعرکوں پر کوئی تفصیلی تحریر مستقبل میں امیر کاکوئی قریبی ساتھی ضبط تحریر میں لائے میں صرف اپنی کم فہمی کا کھتارسس کرنا چاہتا ہوں۔میں تخیل میں جمال صورت وجمال سیرت امیر الملک کے ان آٹھ سالوں کی مشکلات کا احساس اپنے اندر جذب کرنا چاہتا ہوں۔امیر کی ایک تصویر کے پس منظر میں پڑے سفید برف کی سرد تھرتھراہٹ کومحسوس کرنا چاہتاہوں ۔خوش خوراک امیر کی خودساختہ غربت کے تصور میں ڈوبنا چاہتاہوں‘جاگیروں اور زمینوں کے مالک امیر کی تہی دامنی کا لذت محسوس کرنا چاہتاہوں۔ اپنی کم فہمی کی اس ندامت سے نجات پانے کیلئے میں نے امیر کے ایک قریبی دوست اور آخری معرکے میں اس کے ہمراہ کو ڈھونڈ لیااورشہادت تک ہرلمحے کی کیفیت سننا چاہی توا س کو اپنی طرح احساسات کے بارگراں تلے پایا۔اس نے آبدیدہ ہوکر کہا امیر الملک کی شہادت کی تصویر میرے سیل فون میں موجود ہے۔میری بچی ان تصویروں کو دیکھ کر اپنی توتلی زبان میں پوچھتی ہے یہ کون ہے ؟اب میں اس ڈرسے فون چھپا دیتاہوں کہ اگر کسی روز جمال کے بارے میں پوچھے تومیں کیسے جواب دونگا کہ بیٹی یہ وہ ہے جس نے مجھ پر آنے والی گولی اپنے سینے پر کھائی۔تصویر میں ساتھ پڑی مچھلی کے ڈبوں کے بارے میں پوچھے تو کیا جواب دوں؟ میں سینے میں اٹھنے والے سوالات کے زیر وبم سے تنگ ہوں۔بچی کو کیسے بتاؤں کہ میراس دوست امیر کے زیر زمین چلے جانے کے بعد سے اس کی والدہ (آئی ) نے گھر میں مچھلی نہیں پکائی۔ امیر کے اس دوست نے کہا کہ شہادت کے وقت میں امیر سے چند سوگزکے فاصلے پر تھا۔

میں اس کا دوست ہوں ساتھی ہوں ہمسفر ہوں مگر پیروکار نہیں‘کیونکہ اس کی پیروی کیلئے بندوق کی میگزین سے ایک گولی نکال کر علیحدہ سے جیب میں رکھنا پڑتی ہے جوکہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔ تم صحیح کہتے ہو امیر ایک مشکل شخص تھا، آخری مشکل اپنے دوستوں کیلئے پیدا کی کہ دوستوں کی راہ گزر میں اپنی آخری آرام گاہ بنالی اورکم پختگی یا کسی نہ کسی وجہ سے بکھرنے والوں کے پاؤں میں اپنی یا د کی بھٹی میں تپ کر پکنے والی بیڑیاں ڈال دیں اورفرار کے راستے مسدود کردیئے۔ایک طرح سے یہ بھی مشکل پیدا کی ‘ہر ایک ساتھی کو اس کے ضمیر کے امتحان گاہ میں تنہاء چھوڑ کر۔

Exit mobile version