نئی دہلی (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق اس وقت پورا انڈیا کورونا وائرس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، جہاں وائرس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر مکمل طور پر مفلوج بنادیا ہے۔
انکت سیٹھیا نے جمعے کی پوری رات جاگ کر گزار دی تاکہ کسی نہ کسی طرح ممبئی کے مضافات میں واقع 50 بیڈ کے ہسپتال کے لیے آکسیجن کا انتظام کر لیں۔
انکت کے ایس ایس ہسپتال میں آکسیجن کے چار میں سے صرف دو ٹینک بھرے ہوئے تھے۔ جبکہ ہسپتال میں 44 بیڈز پر کورونا وائرس کے مریض موجود تھے جنھیں آکسیجن کی ضرورت تھی۔
ہر چھوٹا ٹینک نو کے بجائے چھ گھنٹوں میں ختم ہو رہا تھا کیونکہ مریضوں میں اس کی ضرورت زیادہ بڑھ رہی تھی اور انکت سیٹھیا کو آکسیجن دینے والے دونوں افراد کے پاس خود بھی آکسیجن نہیں رہی۔
اس رات انکت سیٹھیا نے قریب 10 آکسیجن ڈیلرز اور چار ہسپتالوں کو فون گھمائے تاکہ آکسیجن حاصل کی جا سکے۔ لیکن مدد نہ ملی۔ پھر کہیں جا کر انھیں 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ہسپتال سے 20 بڑے سلنڈر دستیاب ہو گئے۔
ان کے پاس آکسیجن لانے کے لیے گاڑیاں نہیں تھیں تو ان کی اپنی ایمبولنسز نے پوری رات پانچ چکر کاٹے تاکہ وہ آکسیجن حاصل کر سکیں۔
اب ان کے ہسپتال میں چار افراد کا سارا دن کام ہی یہی ہے کہ وہ ایسے ڈیلرز سے رابطے میں رہیں جو انھیں فوری طور پر آکسیجن کا سلنڈر یا ٹینک فراہم کر سکیں۔
اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انکت سیٹھیا نے کہا: ‘میرے پاس اگلے 12 گھنٹے کی آکسیجن ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم روزانہ آگ بجھا رہے ہیں اور جنگ صرف یہی ہے کہ کسی طرح آکسیجن مل جائے۔’
انکت سیٹھیا اکیلے نہیں ہیں۔ اس وقت پورا انڈیا کورونا وائرس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت میں ہے اور بدھ کو سرکاری طور پر تصدیق کی گئی کہ ملک میں کورونا وائرس کے مجموعی متاثرین کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، اور انڈیا امریکہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا متاثرہ ملک بن گیا ہے۔
نہ صرف یہ، بلکہ کورونا وائرس دنیا میں سب سے تیزی سے انڈیا میں پھیل رہا ہے اور گذشتہ پانچ دنوں میں روزانہ 90 ہزار نئے متاثرین کی شناخت ہو رہی تھی۔
انڈیا میں وائرس کے بڑھنے کی رفتار میں تیزی ایک ایسے وقت میں آ رہی ہے جب حکومت نے لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیاں ہٹانے کا حکم دیا ہے تاکہ انڈیا کی گرتی ہوئی معیشت اور لاکھوں کی تعداد میں بے روز گار افراد کو سہارا مل سکے۔
اب تک انڈیا میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہے اور ملک بھر میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز اور بستر کم پڑ گئے ہیں اور آکسیجن کی شدید قلت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 15 فیصد مریضوں کو سانس لینے میں مدد چاہیے ہوتی ہے۔
انتہائی بیمار مریضوں میں سے ایک بہت قلیل تعداد کو وینٹیلیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔
انڈیا بھر میں 500 کے قریب فیکٹریاں ہوا سے آکسیجن حاصل کر کے اسے قابل استعمال بنا رہی ہیں۔
پھر یہ فیکٹریاں آکسیجن کو مائع حالت میں ٹینکرز کی مدد سے ہسپتالوں میں پہنچاتی ہیں جو اسے گیس میں تبدیل کر کے براہ راست بستروں پر پڑے مریضوں کو دیتے ہیں۔
کچھ ہسپتال اس کے لیے سلنڈرز استعمال کرتے ہیں لیکن اس کی بار بار نگرانی کرنی پڑتی ہے اور تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
اب جب انڈیا آہستہ آہستہ اپنی معیشت کھول رہا ہے اور لوگ کام پر واپس لوٹ رہے ہیں، تو کورونا وائرس ملک کے چھوٹے قصبوں اور علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
صرف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک میں چھ لاکھ سے زیادہ نئے متاثرین کی شناخت ہوئی ہے اور ایک اخبار نے کہا کہ ‘ایک بہت خوفناک مرحلہ آن پہنچا ہے۔’
اور ایسی صورتحال میں یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ آکسیجن کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
حاصل کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں ملک بھر میں 2700 ٹن آکسیجن استعمال ہو رہی ہے جب کہ اپریل میں یہ تعداد صرف 750 ٹن تھی۔
آکسیجن بنانے والوں کا کہنا ہے کہ اس دوران صنعتی آکسیجن کی طلب میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے کیونکہ معیشت کی بحالی کے ساتھ مختلف صنعتیں بھی کھل رہی ہیں۔
آل انڈیا انڈسٹریل گیس مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر ساکیت ٹکو کہتے ہیں ‘ہماری تیار کی ہوئی 45 فیصد آکسیجن صنعتوں کو جا رہی ہے جبکہ 55 فیصد ہسپتالوں کو جا رہی ہے۔