زیارت(ہمگام نیوز)مقبوضہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں دو افراد کو چوری کے الزام میں انگاروں سے گزانے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ڈپٹی کمشنر نے اس واقعے کے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ جبکہ مقامی افراد اب آگ سے گزرنے والے افراد پر الزام عائد کرنے والے شخص کو جرگے میں طلب کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تفصیلات کےمطابق یہ واقعہ مقبوضہ بلوچستان کے علاقے زیارت کی مقام سنجاوی میں پیش آیا تھا جہاں مقامی جرگے نے ملک عبدالرحیم کی شکایت پر گل زمان اور رضا کو انگاروں پر سے گزر کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
17 دسمبر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک
ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ نوجوان کے گزرنے کے بعد وہاں موجود لوگ خوش ہوتے ہیں کہ آگ نے اسے کوئی گزند نہیں پہنچایا۔
سنجاوی کے ایک مقامی رہائشی کا کہنا ہے بنیادی طور پر اس گاؤں میں ایک شخص ملک عبدالرحیم کا ٹریکٹر اور دیگر سامان چوری ہوا۔ جس نے گل زمان اور رضا پر الزام عائد کیا کہ وہ اس چوری میں ملوث ہیں۔
رہائشی کے مطابق جرگہ نے اس سے قبل علاقے کے مقامی مولویوں سے بھی مشورہ کیا تھا کہ چوری ثابت کرنے کے لیے انگاروں سے گزارنے کا عمل کیسا ہے، جس پر انہیں بتایا گیا تھا کہ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے اور مولانا کے منع کرنے کے باوجود مقررہ دن پر 21 فٹ گہرے گڑھے میں آگ جلا کر اس میں انگارے بچھائے گئے جن پر بعد میں گل زمان نامی نوجوان کو گزارا گیا اور رضا ولد کلہ خان کو بھی ان انگاروں پر سے گزرنا پڑا تاہم دو دن گزرنے کے بعد بھی ان کے پاؤں نہیں جلے جس پر اب یہ لوگ الزام عائد کرنے والے ملک عبدالرحیم کے خلاف جرگہ طلب کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ چربیلی یعنی انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کی باقاعدہ ایک رسم تھی اور اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ پہلے آگ جلا کر اس کے انگارے بنائے جاتے تھے۔ جب انگارے بن جاتے ہیں تو ایک مولوی آکر آگ کے پاس سات دفعہ گزر کر قرآن اٹھائے کہتا ہے کہ اگر یہ بندہ مجرم ہے تو آگ تو اللہ کے حکم سے اس کو جلا دے۔ اگر یہ مجرم نہیں تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچانا اور یہ رسم 2006 سے پہلے ہوتی رہی اس کے بعد اس پر انتظامیہ نے پابندی لگا دی تھی اور لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس قسم کی رسمیں کرنے سے گریز کریں۔