Homeخبریںاپنی قوم اور لوگوں کی مدد و کمک سے جدوجہد کو مضبوط...

اپنی قوم اور لوگوں کی مدد و کمک سے جدوجہد کو مضبوط اور منظم کرے گے:ایف بی ایم

ایف بی ایم پالیسی رپورٹ
(ہمگام نیوز )

بلوچ قومی جدوجہد شروع کرنے کا مقصد بلوچ قوم کی آزادی حاصل کرنا ہے اور اس مقصد کے لیئے بلوچ رہنما حیربیار مری نے مختلف افراد ، پارٹیوں اور تنظیموں کی اس فلسفے کے تحت کمک و مدد کی تاکہ سب مل کر پاکستانی ریاست کو شکست اور بلوچستان اور بلوچ قوم کو پاکستانی قبضہ سے نجات دلا سکیں ۔ اس تحریک میں شامل تمام تنظیموں سے تعلق رکھنےوالے افراد نے قربانیاں دیں۔ بہت سے آزادی پسند اس راہ میں شہید ہوئے اور بے شماربلوچ فرزند آج دشمن کی زندانوں میں آزادی کی چاہت اور اَرزو لیئے اذیت برداشت کررہے ہیں۔قومی آزادی کی تحریک کو قومی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس سیاسی عمل میں قوم کے تمام افراد، جن کا تعلق خواہ کسی بھی پیشہ سے ہو ان کی توانائی اور شراکت کو قوم کی آزادی پانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس جدوجہد کی کامیابی کا دارومدار قوم کی بلا تفریق شمولیت پر ہوتا ہے۔ اس میں امیر و غریب، سردار و مزدور، قبائلی و غیر قبائلی کی تفریق اور تضادات کو ختم کرتے ہوئے تمام قوم کو قومی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے متحرک کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ آزادی کی جدوجہد کثیر الجہتی جدوجہد ہوا کرتی ہیں اس میں گروہ پرستی اور قوم کے درمیان طبقاتی بنیادوں پر نفرتیں
پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن بدقسمتی سے گذ شتہ آٹھ نو سالوں سے بلوچ قومی جدوجہد کو پارٹی بازی ، گروہیت، علاقائیت اورمصنوعی طبقاتی تفریق کے ذریعے کمزور اور تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بلوچ قومی
مفادات اور تحریک کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا اورتحریک کے اندر ایک بحرانی کیفیت کا ماحول پیدا ہوچکا ہے

جب ابتدائی سالوں میں بلوچ رہنما حیربیار مری کو اس بات کا ادراک ہوا کہ جدوجہد اپنی فطری سمت سے ہٹ کر غلط رخ لے رہی ہے تو سب سے پہلے تنظیموں کے ذمہ داروں اور سابقہ اتحادیوں سے ان اعمال پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ جب تحریک مزید نااتفاقیوں کا شکار ہوتا گیا اور ان تنظیموں کی پالیسیاں قومی مفادات کے خلاف ہوتی گئی تب 2010 میں نہ صرف بلوچ رہنما حیربیار مری کی طرف سے قومی آزادی کی تحریک میں شامل جماعتوں اور نمائندوں کے درمیان
جدوجہد کے طریقہ کار اور پالیسیوں کے حوالے سے اختلافات سے قوم کو آگاہ کیا گیا بلکہ بعد ازاں جدوجہد کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے اور دوبارہ منظم کرنے اور تنظمیوں اور نمائندوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے لیئے
عملی کوششیں بھی کی گئیں ۔ اس عمل کے دوران ارکان کو ذمہداریاں سونپ کر ان تنظیموں اور پارٹیوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لیئے بیجھا گیا لیکن دوسری جانب کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔اس عمل کے بعد ان تمام خامیوں اور اختلافات کی نشاندہی مختلف تحریروں اور بیانات کے ذریعئے کی گئی جس میں دو نقطوں کو واضح اجاگر کیا گیا ایک بلوچ
قوم پر آزادی پسند مسلح تنظیموں کی طرف سے طاقت کا استعمال اور دوسرا پالیسی اور طریقہ کار پر اختلافات۔ اس عمل سے بلوچ قوم کے درمیان ہماری پالیسیاں واضح ہوئیں اور ایک حد تک سیاسی عمل میں سرگرم کارکنوں کو اس بات
کا ادراک ہوا کہ ہمارے اختلافات کی بنیاد کیا ہیں۔ اس عمل سے نشاندہی اور سیاسی شعور پیدا کرنے کی حد تک سیاسی دوست کامیاب ہوسکے لیکن دوسرے تنظیموں
کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آیا کہ وہ اپنی پالیسیاں درست کرتے ہوئے آپس میں ہمکاری کریں۔
دوستوں کی مشاورت اور بلوچستان اور بیرون ممالک سے تحریک کے ہمدردوں کی تجاویز اور دنیا کے بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حیربیار مری کی طرف سے
باضابطہ طور پر اتحاد اور اشتراک عمل کے حوالے سے پالیسی سازی کی گئی اور اتحاد کے لیے دو شرائط بیان کے ذریعے قوم کے سامنے رکھے گئے۔

وہ شرائط یہ تھے:

اول ۔ یہ کہ بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم رواج کو پامال کرنا یا کسی قبضہ گیر کا پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا جیسے پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے۔

دوم ۔ یہ کہ جو بھی اشتراک عمل ہو اس میں تنظیمی پلاننگ سے ہٹ کر کہ جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے باقی قوم کے حوالے سے تمام پالیسیوں میں قوم کو نیک نیتی سے اعتماد میں لیا جائے ،اسکے بنیادی نکات و اصولوں سے قوم کو مکمل آگاہی دی جائے تاکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں ناکامی کی صورت میں ذمہداروں اور اسباب کے تعین میں قوم کو کوئی ابہام نہ ہو، اس کے علاوہ اس سے ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی حوصلہ شکنی اور مجموعی قومی مفاد کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی۔
مکمل بیان :

اس بیان کے بعد مخلصی سے تمام سیاسی تنظیموں سے اتحاد کے حوالے سے ایک سال تک کوششیں کی گئی لیکن اس دوران مختلف تنظمیوں کی اتحاد حوالے سے مثبت
بیانات کے باوجود یہ تنظیمیں عملی اتحاد کرنے کے لیے راضی نہیں تھیں۔ اتحادی عمل کے پراسیس کے لیے بنائی گئی کمیٹیوں کی طرف سے قوم کو بیان کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ ’’قومی اتحاد اور اشتراک عمل کی کوششیں کامیاب نہ
ہوسکی‘‘۔
مکمل بیان:

قومی اتحاد اور اشتراک عمل کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکی، حیر بیار کمیٹی

بیان کےذریعے قوم کو تمام پراسس سے آگاہ کرنے کے بعد تنظیموں کی طرف سے دوبارہ رابطے کئے گئے اور اتحاد کے لیے گفت و شنید کے لیے رضامندی ظاہر کی گئی اور بہت سی جگہ اتحاد کے حوالے گفت و شنید بھی کی گئی لیکن بعد میں کسی بھی طرح سے عملی طور پر اتحادی پراسیس میں پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس لیے ایف بی ایم کی طرف سے اس رپوٹ کے ذریعے اس بات کی بھی واضاحت کی جاتی ہے کہ فری بلوچستان مومنٹ کا نہ کوئی سیاسی اتحادی ہے نہ اب تک سیاسی اشتراک عمل کے دوران اصولی اتحادی عمل کامیابی ہوسکی ہے۔تنظیمی طور پر اتحاد سمیت مسائل پر گفت شنید کی تمام تر کوششوں کے باوجود
جن تنظیموں نے عملی طور پر تحریک میں بہتری، اشتراک اور اتحاد کے حوالے سے منفی کردار ادا کیا ان کی طرف سے چند مہینوں سے سوشل میڈیا میں ایف بی ایم اور بلوچ رہنما حیربیار مری پر الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس پر قومی رہنما نے ۷ مئی ۲۰۱۸ میں کارکنوں کے زریعے قوم کے سامنے باقاعدہ مناظرے کی دعوت دی گئی تاکہ قوم کے سامنے ہم اپنے تمام ثبوت اور سیاسی موقف رکھ سکیں اور الزام تراشی کرنے والوں کو بھی موقع دیں کہ وہ اپنے تمام ثبوت اور موقف رکھیں۔ مگر چند ہفتے گزرجانے کے باوجود ان کی طرف سے مناظرے کی دعوت کو قبول کرنے حوالے سے بھی کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیکن
دوسری طرف سوشل میڈیا میں پبلک کمنٹوں کے زریعے ان سیاسی تنظیموں کے ارکان کی طرف سے اس بات کا تاثر دیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی مناظرہ اور مکالمہ کے لیے راضی نہیں جس کی پہنچ اور رساہی برائے راست بلوچ قوم تک ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں نہ اتحاد کےلیے سنجیدہ ہیں نہ ہی یہ قوم کے سامنے مناظرہ ومباحثہ کے لیے تیار ہیں اب اس صورت حال میں جہاں عمومی طور
پر دنیا اور خاص کر پاکستان اور ایران کے حالات تیزی کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کے حق میں بدل رہے ہیں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے فری بلوچستان مومنٹ اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ وہ اپنی قوم اور لوگوں کی مدد و کمک سے
جدوجہد کو مضبوط اور منظم کرے گی۔ اس بدلتی ہوئی بین القوامی حالات میں اپنی توانائی قومی تحریک کو منظم کرنے میں لگائے گی تاکہ دنیا میں پیدا ہونے والے حالات اور خطے میں آنے والے تبدیلی کا فائدہ بلوچ قوم کو ہوسکے اور سیاسی طور پر ایسی طاقت قوم کو میسرہو جو مستقبل میں بلوچ قومی ریاست کی تشکیل کو ممکن بناسکیں۔

Exit mobile version