نیو دہلی (ہمگام نیوز ویب ڈیسک )مشرق وسطی کی سیاست میں امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ڈینفور نے واضح کیا کہ امریکہ نے ابھی تک شام میں کسی بھی کیمیائی حملے کے جواب میں فوجی قوت استعمال کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ تاہم صدر ٹرمپ کے ساتھ روزمرہ کی بات چیت جاری ہے تا کہ وہ جان سکیں کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی صورت میں کیا منصوبہ بندی ہو گی۔امریکہ کی جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈینفور کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اُن کی عسکری آپشنز کے حوالے سے روزمرہ کی بات چیت” کا سلسلہ جاری رہے جو شام کی جانب سے اِدلِب پر متوقع حملے میں کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے حوالے سے واشنگٹن کی تنبیہ نظرانداز کرنے کی صورت میں اختیار کیے جا سکتے ہیں۔جنرل ڈینفور کے مطابق صدر ٹرمپ کو ممکنہ عسکری آپشنز کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔گزشتہ ہفتے ایک سینئر امریکی ایلچی نے بتایا تھا کہ اس بات کے “بہت سے ثبوت ہیں” کہ ڈکٹیٹر بشارالاسد کی فوج اِدلب کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کر رہی ہے۔وہائٹ ہاؤس پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر شام کی سرکاری فوج نے اِدلب میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادی “فوری اور بھرپور” جواب دیں گے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل 2017ء اور اپریل 2018ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کے سبب شام کو دو مرتبہ بمب باری کا نشانہ بناچکے ہیں ۔امریکی جنرل نے اِدلب میں انسانی المیے کے وقوع کے امکان سے خبردار کیا اور واضع کیا کہ متبادل راستے کے طور پر وہاں موجود شدت پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ اُن کے مطابق اِدلب میں انسداد دہشت گردی کے لیے روایتی ضخیم عسکری کارروائی سے زیادہ فعال وسائل موجود ہیں۔فرانسیسی فوج کے سربراہ نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اِدلب میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے تو اُن کی فوج شامی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔امریکی جنرل ڈینفور کے مطابق گزشتہ روز روس، ترکی اور ایران کا کسی حل تک نہ پہنچنا یقینا مایوسی کا باعث ہے تاہم غالبا یہ حیران کُن نہیں !