دوشنبه, مې 12, 2025
Homeخبریںاگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے...

اگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جائے:سیما بلوچ

کوئٹہ (ہمگام نیوز )گذشتہ دو سال سے لاپتہ مغوی شبیر بلوچ کی بہن نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے بھائی کو اغوا ہوئے دو سال سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان دو سالوں میں ہمارے خاندان پر کہاں کیا گزری اس کا حال ایک درد مند انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے میرے بھائی شبیر بلوچ کو تربت کے علاقے گورکوپ سے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دوران آپریشن جبری طور پر لاپتہ کردیا۔اس دن سے لیکر آج تک میری زندگی کے بیشتر دن پریس کلبوں میں، عدالتوں میں یا انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کے دفتروں میں اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے جدوجہد میں گزری، لیکن بد قسمتی سے کہنا پڑ رہی ہے کہ میرے بھائی کا آج بھی کچھ پتہ نہیں۔ ان دو سالوں میں سوائے تسلیوں کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے تو کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اعلی حکام کو اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کی روداد سنائی، ایف آئی آر کیلئے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے کئی بار التجا کیئے مگر ایف آئی آر کاٹنے کیلئے انکاری رہے، کورٹ میں پیٹیشن دائر کی لیکن وہاں سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ لگا۔ اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے۔ ریلیاں نکالی لیکن میرا بھائی آج بھی بازیاب نہ ہوسکا۔

سیما بلوچ نے کہا کہ میں نے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان،ایشین ہیومین رائٹس کمیشن و ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سامنے بھی اپنے بھائی کا کیس پیش کیا۔ان اداروں نے میرے بھائی کی فوری بازیابی کا مطالبہ حکومت پاکستان کے سامنے کیا لیکن آج دو سالوں کے بعد بھی میرا بھائی بازیاب نہ ہوسکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ ایک طالب علم تھا جسے 4 اکتوبر 2016 کو سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا لیکن ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ کس جرم کی پاداش میں ہمارے بھائی کو یوں اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق اگر کسی شخص سے کوئی جرم سر زد ہوجاتا ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال مختلف ہے۔یہاں سے لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے اور کئی کئی دنوں تک تشدد کرنے کے بعد ان کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے جو انسان کو زندہ رہنے و آزادی سے اپنی زندگی گزارنے سے محروم رکھنا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین مثال ہے۔

لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن نے مزید کہا کہ ہم گذشتہ دو سالوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر قانونی اصولوں کے مطابق سزا کے عمل سے گزارا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن یوں حبس بے جاء میں رکھ کر پورے خاندان کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کرنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان کے اکثریتی خاندان اس اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایک نوجوان بھائی کے لاپتہ ہونے کا مطلب گھر کے دیگر افراد کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنا ہے۔

انہوں نے آخر میں دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا میں سیما بلوچ شبیر بلوچ کی بہن ایک مرتبہ پھر اپنے بھائی کی بازیابی کا مطالبہ لئے آپ کے سامنے حاضر ہوئی ہوں تاکہ آپ نہ صرف میرے بھائی کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرینگے بلکہ بلوچستان میں دیگر انسانوں کی پر اسرار گمشدگی کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے ۔
آج سے میں اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں ایک ہفتے کی علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھنے کا اعلان اس امید میں کرتی ہو کہ آپ میری آواز بن کر اپنے ذمہ داریوں کو بھرپور انداز میں پورا کرنے کی کوشش کرینگے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز