تل ابیب ( ہمگام نیوز )مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق دو دہائیوں کے دوران اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں، بجٹ اور توانائی ایرانی ڈوزیئر کی نگرانی کے لیے وقف کئے رکھی ہے۔ اگرچہ ایران کے جوہری عزائم پر بھی زیادہ توجہ دی گئی تاہم صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے ہفتہ وار مباحثے اور جائزے بھی ایرانی حکومت کے استحکام اور بقا کے امکانات پر مرکوز ہیں۔
اب کچھ اسرائیلی ماہرین نے 35 سال اقتتدار میں رہنے والی حکومت میں تبدیلیوں کے متعلق محتاط امید کا اظہار کرنے کی ہمت کرڈالی ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس اور سیکورٹی کمیونٹی کے زیادہ تر رہنماؤں نے کہا ہے کہ گزشتہ 40 سالوں میں اسلامی جمہوریہ میں حکومت مخالف مظاہروں کی پچھلی لہروں کے برعکس گزشتہ تین مہینوں سے جاری ملک گیر احتجاج آسانی سے گزر جانے والا واقعہ نہیں ہے۔
ایک اعلیٰ درجے کے اسرائیلی سکیورٹی ذریعے نے ’’دی مانیٹر‘‘ کو بتایا کہ موجودہ ایران وہ ایران نہیں ہے جو 10 یا 5 سال پہلے یا گزشتہ سال یا تین ماہ قبل موجود تھااب جو کچھ ہو رہا ہے وہ گہرا، وسیع اور ناقابل واپسی ہے۔
سابق نائب وزیر دفاع جنرل (ر) افرائیم سنیہ نے اس صورتحال کو “دائمی” قرار دیا اور کہا یہ اب کوئی مقامی پریشانی یا عارضی بیماری نہیں رہی۔ ایران کا چہرہ بدل رہا ہے اور یہ اب واپس نہیں جائے گا۔”
تاہم اسرائیلی امید پرست بھی اس مختصر مرحلے میں تہران میں حکومت کی تبدیلی پر شرط لگانے کو تیار نہیں ہیں۔
اسرائیل کے سینئر سکیورٹی ذریعہ نے کہا کہ حکومت کے پاس اپنے دفاع کے لیے اب بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ممکنہ تبدیلیاں اور رعایتیں حکومت کو کرنی ہوں گی۔ ایک طرف ہمارے لیے موجودہ حکومت کا متبادل دیکھنا مشکل ہےاور دوسری طرف، ایران میں تبدیلی حقیقی ہے۔
ذریعہ نے کہا 21 نومبر کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اپنے پہلے میچ میں ایرانی قومی فٹ بال ٹیم نے قومی ترانہ گانے سے انکار کیا تو اسرائیلی تجزیہ کار دنگ رہ گئے تھے۔ یہ ایک علامتی عمل تھا، لیکن اس ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔
ذرائع نے نشاندہی کی کہ اگر حکومت لازمی حجاب کو ختم بھی کردے تو بھی احتجاج جاری رہے گا۔
ہوسکتا ہے کچھ سکون کا دور آجائے لیکن ایرانی عوام نے خوف کی رکاوٹ کو عبور کرلیا ہے اور مظاہرین حکومت کے سامنے حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں۔ اس رجحان کو تبدیل کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔
اس طرح کے عوامی اختلاف پر گہری نظر رکھتے ہوئے اسرائیلی ماہرین ایرانی حکومت کے درمیانی اور طویل مدت میں باقی رہنے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی اور کہا کہ تین عناصر ہیں جو حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے احتجاج میں اب تک موجود نہیں ہیں۔
پہلی ایک ممتاز اور کرشماتی قیادت ہے جسے حکام خاموش نہیں کر سکتےجیسا کہ 1979 میں اسلامی انقلاب کو ہوا دینے والے روح اللہ خمینی موجود تھے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک سینئر ذریعے نے کہا کہ اس وقت احتجاج میں ایک اہم رہنما کی کمی ہے اور یہ ایک واضح نقص ہے۔ دوسرا احتجاج کی لہر سے غائب ایک اضافی عنصر منظم مالیات ہے۔ تیسرا عنصر معزز علما کی حمایت ہے جو اب تک اس احتجاجی تحریک کو حاصل نہیں۔
سینئر انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ایران میں عوام اسلام کو نہیں چھوڑتے اور زیادہ تر ایرانی مذہبی ہیں۔ مظاہروں کو زیادہ طاقتور سطح تک لے جانے کے لیے ایک مذہبی اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ اتھارٹی غائب ہے۔
اسرائیل درمیانی سے طویل مدتی عرصہ میں تبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کرتا۔ ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ تقریبا تمام انقلابات آخر میں ایک اچانک واقعہ ہوتے ہیں جہاں آپ ایک دن بیدار ہوتے ہیں، دیوار گر چکی ہے اور یہ ایران میں بھی ہو گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کب ہوگا ۔ اس میں مہینوں یا سال بھی لگ سکتے ہیں