واشنگٹن (ہمگام نیوز ڈیسک) امریکہ میں متعیّن سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹ کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی جو کہ شیعہ انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر میں توسیع پسندانہ ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ماضی میں خلیجِ عرب میں عرب سرزمین ان کے ملک کا حصہ رہی ہے۔انھوں نے اس علاقے کو ’جنوبی ایران‘ کا نام دیا ہے سعودی سفیر نے اس بیان کو خطرناک اور توسیع پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ ایرانی نظام ابھی تک اعتدال پسند نہیں ہوا ہے‘‘۔افسوس ناک امر یہ ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ نظام دہشت گردی اور سخت گیر ملیشیاؤں کی مالی معاونت کے لیے ایرانی قوم کی دولت لُٹاتا رہے گا‘‘۔
شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر ’’ ناکامی کے 40 سال‘‘ کے عنوان سے ہیش ٹیگ کے تحت ایران کی موجودہ مجموعی صورت حال کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ 40 سال قبل آیت اللہ ( روح اللہ خمینی) ایران میں اُترے تھے اور اس کے بعد اس خطے میں دہشت گردی اور تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا‘‘۔
انھوں نے ایران کی معیشت کا سعودی عرب کی معیشت سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1979ء میں دونوں معیشتوں کا حجم ایک ہی جیسا یعنی برابر تھا لیکن آج سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار GDP ایران سے دُگنا ہوچکی ہے۔اس عرصے کے دوران میں سعودی عرب کی فی کس آمدنی دس گنا سے بھی بڑھ چکی ہے جبکہ ایران کی فی کس آمدن نصف سے زیادہ کم ہوچکی ہے۔واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے سوموار کو شیعہ انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر تہران میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بعض خلیجی عرب ممالک پر تاریخی دعوے کیئے تھے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا:’’ سینکڑوں سال قبل ایران کے ایک بڑے حصے کو الگ کردیا گیا تھا۔ان حصوں پر ، خلیج کے جنوب میں بہت سے ممالک قائم کردیے گئے تھے‘‘۔انھوں نے یہیں پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ عرب ممالک کے علاوہ وسط ایشیا کے تین ممالک پر بھی دعوے کردیے تھے اور کہا تھا کہ تین موجودہ ممالک آذر بائیجان ، آرمینیا اور جارجیا میں شامل بعض علاقے دراصل ایران کے ملکیتی حصے تھے اور انھیں اس سے علیحدہ کرکے ان ریاستوں میں شامل کردیا گیا تھا۔