ایران (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق ایران نے علاقائی حریف سعودی عرب کے ساتھ برسوں سے جاری تناؤ کو کم کرنے کے لیے بغداد کی ثالثی میں ہونے والی خفیہ بات چیت کو عارضی طور پر معطل کردیا ہے۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے اتوار کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ فیصلہ سعودی عرب کی جدید تاریخ میں دی گئی سب سے زیادہ پھانسیوں کی سزا کے اگلے ہی دن کیا گیا۔
ایرانی نیوز ویب سائٹ نور نیوز نے، جو ملک کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے قریب سمجھی جاتی ہے، اطلاع دی ہے کہ حکومت نے یکطرفہ طور پر سعودی عرب کے ساتھ ان مذاکرات کو روک دیا ہے جو گزشتہ سال سےبغداد میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کیے جارہے تھے۔
عراق کے وزیر خارجہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ سعودی اور ایرانی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بدھ کو دوبارہ شروع ہونے والا ہے۔ رپورٹ میں ایران کی جانب سے بات چیت کی یکطرفہ معطلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، لیکن یہ معطلی سعودی عرب کی جانب سے ان اکیاسی افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے فوری بعد ہوئی ہے جن کے بارے میں کہا گیاہے کہ وہ عسکریت پسندی، قتل اور دیگر جرائم کے مرتکب ہوئےتھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں تین درجن سے زیادہ اہل تشیع تھے۔
سعودی عرب کے تیل سے مالامال مشرق میں رہنے والے اہل تشیع طویل عرصے سے شکایت کرتے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مسلک کی آبادی کو دی جانے والی پھانسیوں نے ماضی میں بھی علاقائی بدامنی کو ہوا دی تھی۔
دنیا کے سب سے بڑے اہل تشیع آبادی والے مسلم ملک ایران نے سنی طاقت کے مرکز سعودی عرب سے دو ہزار سولہ میں ممتاز شیعہ عالم نمرالنمر کو پھانسی دیے جانے کے بعد سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مشتعل ایرانیوں نے ایران میں دو سعودی سفارتی مشنوں پر دھاوا بول دیا تھا جس سے دونوں اقوام کے درمیان برسوں کی دشمنی کو ہوا ملی تھی۔
ہفتے کی شام قریبی جزیرے بحرین میں ان پھانسیوں کے خلاف شیعوں کے احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔
سعودی عرب نے جب یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف اپنی جنگ کو ختم کرنے کی راہیں تلاش کرنا شروع کیں تو بغداد کی ثالثی میں دونوں علاقائی دشمنوں کے درمیان عراقی دارالحکومت میں گزشتہ برس خاموشی سے بات چیت کا آغاز ہوگیا تھا ۔یمن کے اس تنازع نے دنیا کی بدترین انسانی تباہی کو جنم دیا ہے اور باغی ڈرون لے کر آگئے ہیں جن سے وہ سعودی عرب کے ہوائی اڈوں اور تیل کی تنصبات پر میزائیلوں کی بارش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاوں نے بھی سعودی اہداف کو نشانہ بنایا اور عراق سے ڈرون حملے کیے ہیں۔
مشرق وسطی میں اثر ورسوخ کے لیے طویل عرصے سے مقابلہ کرنے والے ان ممالک کےدرمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ہونے والی بات چیت میں تعطل ایک ایسے تناؤ کے وقت آیا ہے جب اتوار کو ایران نے عراق کے شمالی شہر اربیل میں امریکی قونصل خانے کے قریب گرائے گئے میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس حملے کو شام میں اسرائیلی حملے کا بدلہ قرار دیا ہے جس میں اس کے پاسداران انقلاب کے دو ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی دوران عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والی بات چیت گزشتہ ہفتے بغیر کسی معاہدے کے منقطع ہوگئی ہے، جس سے کئی مہینوں تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں جو پیش رفت ہوئی تھی وہ اب غیر یقینی صورتحال کا شکارہوگئی ہے۔