Homeآرٹیکلزایس ایف ٹی اور تبت کی تحریک آزادی قائم خان بلوچ

ایس ایف ٹی اور تبت کی تحریک آزادی قائم خان بلوچ

تاریخ عالم کے گزرے ہوئے یا حالیہ ادوار میں جاری سیاسی تحاریک میں طلباء وطالبات کا کردار نمایاں رہا ہے ۔ وہ تحاریک سماجی ، سیاسی ، معاشی و اقتصادی یا پھر زندگی کے کسی بھی شعبے میں چلی ہوں طلباء و طالبات کا کردار ایک ناقابلِ تردید حقیقت رہا ہے ۔ حالیہ دور میں جاری سیاسی تحریکوں میں بالخصوص آزادی کی تحریکوں میں طلباء و طالبات مختلف ممالک میں اپنے تاریخی کردار کو دیگر طبقے کے افراد کے شانہ بشانہ نبھا رہے ہیں ۔ انہی کرداروں میں سے ایک تبت کی تحریک آزادی میں سرگرم تبتی طلباء طالبات(اسٹوڈنٹس) کی تنظیم Students for a Free Tibet(SFT)ہے جس نے پر امن ذرائع جدوجہد کو استعمال میں لاتے ہوئے متعدد مواقع پر سیاسی پریشر(Political Pressure) ڈالنے کے ذریعے کئی حوصلہ افزاء نتائج اور کامیابیاں حاصل کی ہیں جو تبت کی تحریک آزادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ واضح رہے کہ تبت چائنا کے زیرِ قبضہ ایک خطہ ہے جس پر چائنا نے وہاں کے مقامی باشندوں کی خواہشات کے برعکس بزور شمشیر قبضہ جمایا ہوا ہے اور اسکے باشندے اپنے تاریخی جغرافیائی حیثیت اور جداگانہ نسلی و ثقافتی بنیادوں پر چائنا سے آزادی کی تحریک چلارہے ہیں ۔ اس تحریک کے روح رواں تبتیو ں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ ہیں ۔ اس تحریک میں ایس ایف ٹی ایک نمایاں کردار ادا کررہی ہے ۔ ایس ایف ٹی کے سیاسی جدوجہد، اسکے طریقہ کاراور پر امن سیاسی پریشر کے ذریعے کئی کامیابیوں کے حصول کا مطالعہ کرنے سے قارئین کویہ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ سیاسی و انقلابی تحریکوں میں طاقت کے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ سیاسی پریشر، لابنگ ، کیمپیننگ اور سفارتکاری بھی اپنی جگہ ایک ناگزیر ذریعہ اور ایک خاص اہمیت و افادیت رکھتا ہے اور اس میں سماج کا متحرک ترین طبقہ طلباء طالبات بھی ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس ایف ٹی کے جدوجہد کو قارئین کے مطالعے کیلئے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
ایس ایف ٹی جس کا مخفف Students for a Free Tibet ہے کا قیام 1994میں عمل میں لایا گیا۔ تبت کی تحریک آزادی میں طلباء و طالبات کے فعال کردار کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے چند تبتی آزادی پسندسیاسی کارکنوں اور تبتی اسٹوڈنٹس نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایس ایف ٹی تبت کے اندر جدوجہد کرنے کے بجائے باہر ممالک میں مقیم تبتی طلباء و طالبات پر مشتمل ایک انٹرنیشنل نیٹ ورک ہے ۔ عالمی سفارتکاری اور لابنگ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس ایف ٹی عالمی سطح پر جدوجہد کررہی ہے۔ اپنے قیام کے ساتھ ہی تنظیم کی ممبرشپ تیزی سے بڑھتی گئی اور دو سال کے اندر ہی دنیا کے مختلف ممالک میں اسکے 150چیپٹرز (Chapters) قائم ہوئے ۔ ابتدائی طور پر تنظیم نے اپنی جدوجہد کا محور ساتھی طلباء وطالبات میں تبتی تاریخ وثقافت، چینی قبضے اور آزادی کی تحریک کے متعلق آگاہی پھیلانے کو بنایا ۔ اور تیزی سے باہر ممالک میں مقیم تبتی اسٹوڈنٹس کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ فی الوقت ایس ایف ٹی 35ممالک میں پھیلی ہوئی ہے ۔ اور دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں،کالجوں ، ہائی اسکولوں اور عام کمیونٹیوں میں اسکے 650چیپٹرز ہیں ۔ تنظیم کا ہیڈکوارٹر(ہیڈآفس) نیویارک(امریکہ) میں ہے جبکہ ٹورنٹو(کینڈا)، دھرمشالہ(انڈیا)اور لندن(برطانیہ) میں بھی اسکے دفاتر موجود ہیں۔
تنظیم کا پالیسی ساز ادارہBoard of Directorsکہلاتا ہے جو اسکے تمام اسٹریٹیجک پالیسیوں کو ترتیب دینے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ Board of Directorsکے ممبران کا چناؤ براہ راست چیپٹرز کے ممبران اور Long-Term Volunteers(تنظیم کے ساتھ طویل مدت سے جدوجہد کرنے والے رضاکار) کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے ۔ اسکے بعد Board of Directorsتنظیم کے سربراہ (Executive Director)کو منتخب کرتا ہے اور Executive Directorاپنے باقی اسٹاف جس میں Deputy Director، Director,،Director of Tibet Action Institute(تنظیم کا تربیتی ادارہ)اور مختلف خطوں کے ڈائریکٹرز شامل ہیں کو چنتا ہے ۔فی الوقت Tenzin Dolkarنامی ایک خاتون تنظیم کے Executive Director ہیں جو امریکی نژاد تبتی ہیں۔
ایس ایف ٹی اپنا مقصد تبت کی آزادی کو بناتے ہوئے سیاسی تعلیم، سیاسی وکالت و سفارتکاری کیلئے پر امن اور عدم تشدد پر مبنی ذرائع کو زیر استعمال لاتے ہوئے میدان کارزار میں محوِ جدوجہد ہے۔ جس نے اب تک سیاسی پریشرکے ذریعے کئی حوصلہ افزاء کامیابیاں حاصل کی ہیں۔تنظیم تبت میں چائنا کی لوٹ کھسوٹ اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ تبت کی تاریخی بنیادوں پر جغرافیائی و سیاسی آزادی و حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ ایس ایف ٹی کو چینی حکام کے غیر ملکی دوروں کے دوران بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے انعقاد کیلئے خاص طور پر جانا جاتا ہے۔ تنظیم سیاسی اقدامات کے ذریعے چینی حکام اور ساتھ ساتھ تبتی پارلیمنٹیرینز پر سیاسی پریشر بھی بڑھاتا رہتا ہے۔ تنظیم تین پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کا محور بنائے ہوئے ہے۔
اول : سیاسی(Political) ، دوئم: معاشی و ماحولیاتی(Environmental and Economic RIghts) ، سوئم : انسانی حقوق(Human Rights)۔ جن کا باری باری احاطہ ہم اس مضمون میں کریں گے۔
1۔ سیاسی (Political):
ایس ایف ٹی سیاسی میدان میں مختلف سیاسی طریقوں اور اقدامات کے ذریعے چینی حکومت اور تبتی پارلیمنٹیرینز پر تبت کی آزادی کیلئے دباؤ بڑھارہی ہے۔ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی لابنگ کے ذریعے تبت کی تاریخی جداگانہ حیثیت، چینی قبضے اور موجودہ صورتحال کے بارے میں دنیا کو آگاہی فراہم کرکے تبت کی آزادی کیلئے راہ ہموار کررہی ہے۔ اپنی اس جدوجہد میں تنظیم مختلف Long-Term Campaignsچلارہی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔Unite for Tibet :
اس Campaignمیں دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا جاتاہے کہ وہ یک زبان ہوکر تبت کی آزادی کیلئے چینی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ اس ضمن میں ای میلز، فیکس، حکومتی و عوامی نمائندوں سے براہ راست ملاقات کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بجائے کہ تبت کی آزادی کے متعلق ہر کوئی ملک الگ بیان دے ۔ مختلف ممالک کی حکومتیں باہمی مشورے سے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے کر تبت کی آزادی کیلئے اس حکمت عملی کے تحت چائنا پر دباؤڈالیں۔ یہ ایک Long-Term Campaignہے جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور مختلف اوقات میں ایس ایف ٹی کے نمائندے مختلف ممالک کے نمائندوں سے رابطہ کرکے انہیں اس فارمولے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2۔March 10:
10مارچ کو تبت پر چینی قبضے کے خلاف احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 10مارچ 1959کو ہزاروں تبتیوں نے تبت پر چینی قبضے کے خلاف تبت کے دارالحکومت لاسا میں احتجاج کیا تھا اور اب ہر سال ایس ایف ٹی اس دن کو تبت پر قبضے کیخلاف احتجاج کے طور پر مناتی ہے ۔ اس دن دنیا کے مختلف ممالک میں 10مارچ ریلی کے نام سے ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اور تمام لوگوں کواس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
3۔Tibetan Independence Day
تنظیم ہر سال 13 فروری کو یوم آزادی تبت کے طور پر مناتی ہے۔ اس ضمن میں مختلف ممالک میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور آزاد تبت کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں ۔ خود ایس ایف ٹی کے نمائندے مختلف ممالک کے عوامی نمائندوں سے ملاقات کرکے انہیں چائنا اور تبت کے درمیان رشتے کے متعلق آگاہی فراہم کرکے انہیں تبت کی آزادی کے حق میں آواز اٹھانے کا کہتے ہیں ۔ اس دن کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ 13فروری 1913کو تبت نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا مگر چائنا نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا۔ 2013میں اس دن کو تبت کی اعلان آزادی کے سوسال پورے ہونے پر تقریبات کا انعقاد کرکے منایا گیا۔ دنیا کے 30مختلف شہروں میں منعقد ان تقریبات میں ان ممالک کے منتخب عوامی نمائندوں نے شرکت کرکے تبتی لوگوں سے اظہار یکجہتی کی۔ 13فروری کے متعلق ایس ایف ٹی کا نعرہ ہے’’Secure the Past, Shape the Future‘‘۔ایس ایف ٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مقبوضہ خطوں میں یومِ آزادی منانا آزادی کی تڑپ اور خواہش کا برملا اظہار ہے۔
4۔Engage your Government:
اس Campaignمیں دنیا میں رہنے والے تمام افراد سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں پر ای میلز، فیکس، فون کالز اور براہ راست ملاقاتوں کے ذریعے تبت کی آزادی کے مسئلے کو چینی حکام سے اٹھانے کیلئے دباؤ ڈالیں ۔ اس ضمن میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔
5۔Lobby for Tibet :
ہرسال ایک مخصوص دن متعین کرکے تبت کے آزادی پسند جن میں ایس ایف ٹی کے ممبران بھی شامل ہوتے ہیں ، دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتی و عوامی نمائندوں سے ملاقات کرکے تبت کی آزادی کے حق میں آواز اٹھانے کیلئے لابنگ کرتے ہیں ۔ اس دن کو وہ Lobby Day کا نام دیتے ہیں۔
مارچ 2012میں 100افراد پر مشتمل تبتی آزادی پسندوں کے ایک وفد نے جس میں ایس ایف ٹی کے نمائندے بھی شامل تھے ، امریکی ایوان نمائندگان سے ملاقات کی اور ان سے یہ درخواست کی کہ وہ چائنا پر یہ دباؤ ڈالیں کہ وہ تبتیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا خاتمہ کرے۔ جسکے نتیجے میں امریکی کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی جس میں چائنا کی تبت میں غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح 2008میں جب بیجنگ (چائنا) میں اولمپکس کے کھیلوں کے عالمی مقابلے کا انعقاد کیا جارہا تھا اور ان کھیلوں کے افتتاح کیلئے اولمپک ٹارچ ریلی منعقد کی جارہی تھی تو اس موقع پر Sanfransiscoمیں واقع Golden Gate Bridgeپر چائنا کی جانب سے اولمپکس کھیلوں کا سرکاری بینر آویزاں کردیا گیا اور اس پر سرکاری نعرہ One World, One Dreamدرج تھا ۔ اسی جگہ پرسرکاری بینر کے ساتھ ایس ایف ٹی نے اپنا بینر آویزاں کردیا جس پر ’’Free Tibet‘‘ تحریر تھا۔ جو اولمپکس کھیلوں کے سرکاری بینر کے برابرکے سائز کا تھا ۔ اس ڈرامائی اقدام نے عالمی میڈیا میں ایک سنسنی خیز خبر کی حیثیت حاصل کرلی ۔ اولمپکس کھیلوں کے دوران چلائی جانی والی Campaignمیں تنظیم نے دیگر بہت سے سیاسی اقدامات کیئے جن سے تبت کی صورتحال کو کافی پذیرائی ملی اور اولمپکس ٹارچ ریلی میں شامل کم از کم دو مشعل برداروں نے تبت کی آزادی کے حق میں اپنے اپنے بیانات دیئے۔
چینی حکومت کے اولمپکس کھیلوں کو پر امن بنانے کیلئے تمام موثر اقدامات کے باوجود ایس ایف ٹی کے 70ممبران نے بیجنگ میں 8مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیئے جن میں سے 55کو چینی پولیس نے گرفتار کرلیا۔
2۔Environmental and Economic Rights:
جدوجہد کے اس پہلو میں ایس ایف ٹی نے ایک Long-Term Strategyاپنائی ہوئی ہے۔ جسکے تحت تبت پر قبضے کو چائنا کیلئے اس قدر مہنگا بنادیا جائے کہ اس کیلئے اسے برقرار رکھنا مشکل ہوجائے۔ اس اسٹریٹجی کی رو سے تنظیم ملٹی نیشنل اور غیر ملکی کمپنیوں کو چائنا کے ساتھ تجارت کرنے سے روکنے اور دیگر ممالک کے افراد کو چینی کمپنیوں کے مصنوعات کا بائیکاٹ کروانے کیلئے Campaignچلارہی ہے ۔ اس مقصد کیلئے وہ فی الوقت دو بڑے Campaignsپر اپنی توجہ مرکوز کیئے ہوئے ہے۔
۱ ۔Boycott made in China:
اس Campaignکے تحت تبت کے اپنے لوگوں اور دنیا کے دیگر افراد سے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ اس Campaignمیں ایس ایف ٹی کے ساتھ دیگر بہت سے آزادی پسند تنظیمیں شریک ہیں ۔ اس ضمن میں وہ دنیا کے متعدد کمپنیوں ، تنظیموں کو ای میلز ، فون کالزاور براہ راست رابطوں کے ذریعے اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے عام لوگوں کو تبت پر چینی قبضے، تبت کی تاریخی حیثیت اور چائنا کے لوٹ کھسوٹ اور ظلم و استحصال کے بارے میں آگاہی فراہم کرکے احتجاجاً چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
۲۔Stop Mining Tibet:
اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے تبت چینی حکومت کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کے لئے بھی پرکشش ہے۔ چینی حکومت نے متعدد غیر ملکی کمپنیوں کے اشتراک سے تبت کے معدنی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ بڑی تعدادمیں چینی باشندوں کی تبت میں نوآبادکاری کیلئے بہت سے پروجیکٹ شروع کیئے ہیں۔چینی حکومت کے انہی عزائم کو ناکام بنانے کیلئے دیگر آزادی پسندوں کے ساتھ ساتھ ایس ایف ٹی نے بھیStop Minning Tibet کے نام سے ایک Long-Term Campaignشروع کی ہوئی ہے۔ جس کے تحت غیر ملکی خاص طور پر برطانوی اور کینڈین مائننگ کمپنیوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ تبت کے معدنی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں چائنا کے ساجھے دار بننے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ایس ایف ٹی کے اسی سیاسی دباؤ کے تحت چائنا کی ایک مائننگ کمپنی نے Markham Tibetمیں جاری اپنے Hazardous Foxic Minnign Operationکو بند کردیاتھا۔
2005میں ایس ایف ٹی نے ایک World Wide Campaignچلائی جس میں کینڈا کی ایک کمپنی Bombardierکو ہدف تنقید بنایاگیا تھا جس نے چینی حکومت کو اُس ریلوے لائن کی تعمیر کیلئے ٹیکنالوجی فراہم کیا تھا جو تبت اور چائنا کو ملاتی تھی ۔ تنظیم کاموقف تھا کہ ریلوے لائن کی تعمیر میں شراکت دار بن کر Bombardierنے اپنے آپکو تبت پر قبضے میں حصے دار بنایا ہے۔
1999میں ورلڈ بینک نے چینی حکومت کے اشتراک سے تبت کے نواحی علاقوں میں Poverty Reduction Projectکا آغاز غربت کے خاتمے کے نام پر کیا مگر ایس ایف ٹی نے اس پروجیکٹ کے خلاف بڑے پیمانے پر Campaignچلائی ۔ تنظیم کا موقف تھا کہ اس پروجیکٹ کے ذریعے چینی حکومت تبت کے پہاڑی اور عدم رسائی والے علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر اور آبپاشی کا نظام قائم کرنے کی صورت میں بڑی تعداد میں چینی آبادی کی تبت میں نوآبادکاری کا منصوبہ بنارہی ہے۔ تنظیم نے اس پروجیکٹ کے خلاف اپنے Campaignمیں ورلڈ بینک پر دباؤ بڑھانے کیلئے بینک کے عہدیداروں کو فیکس، ای میلز کیئے۔ عہدیداروں کے درمیان لابنگ کی ، بینک کی عمارت پراس پروجیکٹ کے خلاف بینر آویزاں کیئے، میڈیا کے ذریعے اسکی تشہیر کی اور بینک کی عمارت کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کی صورت میں ورلڈ بینک سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔اس احتجاج کی بناء پر ورلڈ بینک نے اس پروجیکٹ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ جسکے بعد چینی حکومت نے ورلڈ بینک کو سیاسی دباؤ کے باعث پروجیکٹ سے دستبردار ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
3۔Human Rights:
انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کے میدان میں ایس ایف ٹی چائنا کی جانب سے تبت میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دنیا میں خوب تشہیر کرتی ہے۔ساتھ ساتھ چینی حکومت کی جانب سے گرفتار شدہ تبتی آزادی پسندوں اور عام باشندوں کی رہائی کیلئے بھی بڑے پیمانے پر Campaignچلارہی ہے۔ اور مختلف انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور جمہوری ممالک کے نمائندوں سے رابطہ کرکے انہیں تبت میں انسانی حقوق کی صورتحال سے آگاہی دے رہی ہے۔
مثلاً 2012میں ایس ایف ٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر Tendolkarاور انٹرنیشنل ڈائریکٹر Kate Woznowنے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نووی پلے سے ملاقات کی اور انہیں تبت میں چائنا کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بریفنگ دی اور ان سے ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ۔ ایک ہفتے کے بعد نووی پلے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے چائنا کی تبت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔
Tibet Action Institute:
یہ ایس ایف ٹی کا تربیتی ادارہ ہے جو ہزاروں تبتی نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر تربیت فراہم کرتی ہے۔ Lhadon Thethongنامی ایک خاتون اس ادارے کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ ادارہ خاص طور پر تحریک آزادی میں پر امن سیاسی جدوجہد کی طاقت و اہمیت سے نوجوانوں کو روشناس کراتی ہے ۔ ساتھ ساتھ موثر سیاسی اسٹریٹجی کی منصوبہ بندی بھی سکھاتی ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے World Wide Campaignsکیسے چلائی جاتی ہیں یہ ادارہ باقاعدہ نوجوانوں کی اسی لحاظ سے تربیت کرتی ہے۔ ایک اور خاص تربیت جو یہ ادارہ تبتی نوجوانوں کو فراہم کرتا ہے وہ یہ کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی کا محفوظ استعمال کیا جائے تاکہ آپکی خفیہ معلومات دشمن اور دیگر غیر متعلقہ افراد کے ہاتھ نہ لگیں۔ مثلاً کمپیوٹر کے استعمال کے دوران کن مواقعوں پر آپکے کمپیوٹر کے Hard Driveسے ڈیٹا چوری ہوسکتے ہیں۔ آپکا ای میل اکاؤنٹ کب ہیک ہوسکتا ہے اور کیسے آپکے ای میل ان باکس سے پیغامات چوری ہوتی ہیں۔ آپکے موبائل فون کو کیسے Tracکیا جاسکتا ہے ۔ آپکے موبائل فون اور سم کارڈ کب آپکے لوکیشن کو ظاہر کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس تربیتی ادارے میں سیاسی گُر اور سفارتکاری کے طریقوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے موثر استعمال اور اسکے نقصانات سے بچنے کیلئے باقاعدہ تربیتی کورس اور لیکچرز ترتیب دیئے جاتے ہیں۔

Exit mobile version