تہران (ہمگام نیوز ویب ڈیسک ) ایران کی رجعت پسندانہ شیعہ ملا ازم دہشتگردانہ سیاست ناکام داخلہ و خارجہ پالیسی و انارکی کے شکار ایرانی معاشرے کی وجہ سے غیر مستحکم و زوال پزیر ایرانی کرنسی ریال کی قدر میں گذشتہ چار ماہ کے دوران میں نصف حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔مارچ میں ایک ڈالر پچاس ہزار کے لگ بھگ ایرانی ریال میں خرید اور فروخت کیا جارہا تھا۔حکومت نے اپریل میں کرنسی کی قدر ایک ڈالر کے عوض بیالیس ہزار ایرانی ریال مقرر کرنے کی کوشش کی تھی اور بلیک مارکیٹ میں کرنسی کا لین دین کرنے والے تاجروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی دھمکی دی تھی۔تاہم بینکوں نے جون میں مصنوعی طور پر کم کی گئی قیمت پر ڈالرز فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکومت نے اپنے موقف میں نرمی کی تھی اور درآمدات والے بعض گروپوں کے بارے میں لچکدار رویہ اختیار کیا تھا۔کرنسی کے اس بحران سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے مرکزی بینک کے سربراہ ولی اللہ سیف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ایران کی کرنسی میں اتوار کو ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے اور ایک ڈالر ایک لاکھ ایرانی ریال کا ہوگیا ہے۔
دوپہر کے وقت ایرانی ریال کا ڈالر کے مقابلے میں غیر سرکاری نرخ 102000 تھا۔کرنسی کے لین دین کرنے والے تاجروں نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر میں ریکارڈ کمی کی تصدیق کی ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کے جولائی 2015ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ایرانی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔امریکا جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کے بعد ایران کے خلاف 6 اگست اور 4 نومبر کو دو مراحل میں نئی پابندیاں عاید کررہا ہے۔ان کے نفاذ کے بعد بہت سی غیرملکی فرمیں ایران کے ساتھ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوجائینگے۔ اور اس سے ایران کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ایرانیوں نے ریال بیچ کر ڈالرکی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ملکی کرنسی کی قدر میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے۔اس لیے وہ ڈالر جمع کررہے ہیں اور ڈالر کی مانگ میں اضافے سے اس کی قیمت میں بھی دگنا تک اضافہ ہوگیا ہے۔جو کہ ایران کی تباہی کی جانب خاص اقدامات میں سے ایک واضع پیشرفت ہے۔یاد رہے جب عراق کی ڈکٹیٹر صدد صدام حسین نے مشرق وسطی کی سیاست میں امریکہ کے سامنے رکاوٹ بنا تو اسے امریکہ نے رفتہ رفتہ سائیڈ لگا کر کمزور کرکے اسے بالآخر صدام کو ان کے کیفر کردار تک پہنچا کر عراق پر خطرناک طریقے سے حملہ اور ہوا۔اور آج ماضی کا وہی عکس ایران و امریکہ سیاست میں نظر آرہا یے۔ جس میں امریکہ کی پلڑا واضع برتری کے ساتھ جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔