Homeآرٹیکلزباقیات کا تسلسل تحریر: شہسوار بلوچ ...

باقیات کا تسلسل تحریر: شہسوار بلوچ ہمگام آرٹیکل

برطانیہ نے جب بلوچستان پر قبضہ جمانے کا ارادہ کیا تو اس نے سب سے پہلے بلوچستان کے طول و عرض میں اپنے ایجنٹوں کا ٹیٹ ورک پھیلا دیا اور ان کو ٹاسک دیا کہ برطانیہ کو بلوچ قوم کی فطرت، تاریخ، سماج، کلچر، ادب و زبان، اقدار سمیت بلوچستان کی مکمل جغرافیہ کے بارے میں جانکاری اور معلومات فراہم کریں۔

 

یہ غالباً 1810 کا دور تھا جب برطانیہ کے انگریز بلوچستان کی سرزمین پر مختلف روپ میں اس طرح پھیل گئے کہ بلوچ کو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں کیونکہ جن جن ایجنٹوں نے بلوچستان کا دورہ کیا وہ بلوچی اور براہوئی زبان پر کافی عبور حاصل کر چکے تھے مکمل بلوچ رنگ میں ڈھل چکے تھےـ

 

ایک ایجنٹ کے بارے میں، میں نے پڑھا تھا کہ وہ نسلی گھوڑوں کا بیوپاری بن کر آیا تھا کیونکہ بلوچ قوم کو نسلی گھوڑے بہت پسند تھےـ

 

بالاخر تمام ایجنٹوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد یہ نتیجہ یا رپورٹ برطانوی ہند کے سربراہ کو ارسال کیا جس میں چند اہم نقاط مندرجہ ذیل ہیں:

 

1۔ بلوچ سماج مکمل قبائلی ہے۔ تمام بلوچ عوام اپنے قبائلی سردار سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سردار کو خدائی صفات کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے خدا پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے جتنا اپنے سردار کو مانتے ہیں۔

 

2۔ یہاں مذہبی تعصب یا تشدد کی کوئی جڑ یا وجود نہیں ہے۔ یہاں کی اکثریت سنی مسلم ہیں اور ہندو مذہب کی ایک بڑی تعداد بھی رہتے بستے ہیں جو کہ صدیوں سے بلوچستان کے باشندے چلے آرہے ہیں، کسی بھی ہندو کو آج تک سنی مسلموں سے کوئی شکایت نہیں رہی ہے۔

 

3۔ یہاں کا عدل و انصاف کا نظام شریعت سے وابستہ ہے جو کہ ایک اسلامی نظام ہے لیکن اکثریت شریعت سے زیادہ اپنے سرداوں کے فیصلوں پر بھروسہ کرتی ہیں اور بلوچ رسم و رواج کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں جس میں سزا و جزا بھی شامل ہے۔

 

4۔ بلوچستان کے عوام اپنے قبائلی سرداروں کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ یہاں کسی خاص قسم کا لیڈر نہیں اور خان قلات کے ہونے کے باوجود ہر قبیلے کے لوگ اپنے سردار سے جڑے ہوئے ہیں اور سردار کا رابطہ مرکز قلات سے ہوتا ہے۔

 

5۔ بلوچ بہت ہی بہادر قوم ہے۔ نہ موت سے ڈرتا ہے اور نہ کسی آسمانی ھستی( خدا، دیوتا، دیو) سے ڈرتا ہے۔

 

6۔ بلوچستان کا مجموعی سیاست “وطن پرستی ” ہے اور اپنے مادر وطن کی حفاظت کے لیئے ہر بڑے طاقت سے ٹکر لینے سے ذرا بھی نہیں کتراتے بھلے کمزور کیوں نہ ہو۔

 

6۔ وفاداری، مہمان نوازی، اپنے کلچر سے جڑے رہنا اور دوستوں اور دشمنوں کی قدر کرنا بخوبی جانتے ہیں۔

 

8۔ ان کا مذہب اسلام ہے لیکن اسلام سے زیادہ اپنے رسم و رواج کے علمبردار اور پاسدای کرتے ہیں۔

 

9۔ پشتونوں کے مقابلے میں بلوچ عوام کو مذہب کے نام پر دھوکہ یا انھیں لڑایا نہیں جا سکتا ہے۔

 

10۔ آزاد رہنا ان کی سرشت میں شامل ہے کسی غیر کی غلامی قبول نہیں کرتے ہیں، سیکولر سوچ کے حامل ہیں، ہر مذہب کے ماننے والوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کا سیکولرزم دوسرے قوموں سے بالکل الگ ہے۔ ان کی انمٹ تاریخ بھی جنہوں نے قبل از مسیح ایرانی فوج میں شامل ہو کر ہر میدان میں یونان کو شکست دی ہے۔

 

11۔ بلوچستان کا جغرافیہ کئی حوالوں سے مختلف ہے، پہاڑیاں، سمندر، ندی، صحرا، میدانی علاقے، زرخیز و خشک و چٹیل زمین بھی ہے، بلوچوں کا مجموعی پیشہ مویشی پالنا اور زراعت پر انحصار کرتا ہے۔

 

ویسے اور بھی کچھ نقاط ہیں لیکن یہ چند اہم نقاط میں نے اجاگر کیا اور یہ برطانیہ کے ایجنٹوں نے برطانوی ہند کے سربراہ کو پیش کیئے تھے۔ لیکن انہی ایجنٹوں نے برطانیہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر انہیں آپس میں لڑا کر تقسیم کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے غریب طبقہ کو سرداروں کے خلاف اکساؤ، انھیں False consciousness میں ڈال دو اور انھیں باور کراؤ کہ سرداروں نے تمہارے حق و حقوق مارے ہیں کیونکہ اگر سردار کمزور پڑ گئے تو سمجھ لو کہ پورا بلوچستان تقسیم ہوگیا ہے۔

ان کو طبقوں اور ٹولیوں میں بانٹ کر، ایلیٹ کلاس، مڈل کلاس، لوئر کلاس میں تقسیم کرکے ان پر اگر براہ راست حکومت نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے منظور نظر سرکار مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ بلوچ وہ واحد قوم ہے جو کہ غیر بلوچ کو اپنے اوپر حکومت کرنے نہیں دیتا ہے۔ بھلے اپنوں کی حکومت کتنی نااہل کیوں نہ ہو۔

 

وہی ہوا جس کو کئی سالوں کی محنت کے بعد برطانوں ایجنٹوں نے چھان بین کے پیش کیا تھا۔

 

محراب خان 13 نومبر 1839 میں برطانوی فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔ بلوچستان پر برطانیہ قابض ہوگیا اور اپنا ایک منظور نظر خان کو قلات کی تخت پر بھٹا دیا اور نوری نصیر خان کا کھینچا ہوا نقشہ مکمل مسخ کردیا۔ جس نے کہا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر گمبدان( بندرعباس) تک بلوچستان ہے۔

 

پھر کیا ہوا؟

 

ہر جگہ سرداروں کے خلاف نعرے لگائے گئے کہ انہی سرداروں نے ہمارے حق و حقوق پر شب خون مارا ہے۔ انھوں نے ہمیں لوٹا تباہ کیا ہے۔

 

اس کے بعد 1948 میں نوازئیدہ برطانیہ داد مملکت پاکستان نے بلوچستان پر شب خون مارا اور بلوچستان پر قابض ہوگیا۔ اس سے پہلے نومبر 1928 میں ایران نے برطانیہ کی حکومت کی مدد سے سردار دوست محمد بارانزئی کی حکومت پر یلغار کیا۔ انہیں پھانسی دے کر شہید کر دیا۔

 

اور پھر کیا ہوا؟

 

ایران نے بلوچستان کو تقسیم کر دیا اور بلوچستان کے کئی علاقے ان سے کاٹ کر الگ صوبے بنائے اور ایران نے بھی بلوچستان پر قابض ہو کر بلوچ عوام کو اپنے سرداروں کے خلاف اکسایا۔ سردار سرادر کا نعرہ بھی لگایا کہ سردار ہی بلوچ عوام کے دشمن ہیں۔

 

1948 میں قابض پاکستان نے اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے بلوچستان کو تقسیم کیا۔ نوری نصیر خان نوری کی سرحدی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر پختوانخواہ میں شامل کر دیا۔ کلانچی (کراچی) تو پہلے بلوچوں کے ہاتھوں سے چلا گیا تھا اور دیگر بہت سے علاقے بھی سندھ میں شامل کیئے گئے، جبکہ ڈیرہ غازی خان جو کہ بلوچ سردار فتح خان کے بیٹے غازی خان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسے کوہ سلیمان کیساتھ کاٹ کر پنجاب میں شامل کردیا گیا۔

 

جب آغا عبدالکریم خان نے آزاد بلوچستان کی بحالی کے لیئے پہاڑوں کا رخ کیا تو قابض پاکستان نے برطانوی پالیسی اپناتے ہوئے بلوچ عوام کو یہ باور کرایا کہ آغا صرف اپنے خانی و سرداری کے لیئے لڑ رہا ہے۔ نتائج کیا برآمد ہوئے، وہ تاریخ کے اوراق میں نقش ہیں۔

 

اس کے بعد کیا ہوا؟

 

ہر جگہ سرداروں اور نوابوں کے خلاف شاطر پنجابی نے محاذ کھولا اور مڈل کلاس، غریب طبقہ، سردار و نواب کا نعرہ پھیلا دیا۔ ایک نہ ختم ہونے والے نفرت کا کلچر فروغ دیا۔

 

70 کی دہائی میں بھی بلوچ نے قابض پاکستان کے خلاف ایک جنگ لڑی، ناکام ہوا اور بعد میں پھر سے بلوچ سرداروں کے خلاف محاذ کھولا گیا۔

 

جبکہ 80 کی دہائی میں بھی سرداروں کے خلاف نعرے لگ گئے مڈل کلاس طبقہ، ڈاکٹر مالک، کہورخان، جالب و رازق سمیت ڈاکٹر یاسین سامنے آگئے، سوشلزم کا دور دورہ تھا ہر طرف امریکہ کے خلاف نعرے لگے، ماؤ اور لینن کے گن گانے لگے، سرداروں کے خلاف شاعری کی گئی ان کے خلاف گیت لکھے گئے بلوچ مڈل کلاس گلوکاروں نے گیت گائے ـ دیواروں پر وال چاکنگ کی گئی۔ اور یہ نعرہ لگایا گیا کہ

 

” مارا ھون لوٹ ایت ما شمارا آزاتی دیاں ”

 

شہید فدا بلوچ نے خون کا نذرانہ پیش کیا اور ان کی لاش پر انہی مڈل کلاسوں نے پیر رکھ کر پاکستانی پارلیمنٹ میں کامیابی سے رسائی حاصل کی۔

 

پھر سب کہ سب شانت ہوگئے۔ اکیسویں صدی کی ابتدا تک کسی نے آزادی کا نام تک نہیں لیا۔

پھر انہیں قبائلیوں اور سردار نے 2000 کی ابتدا میں جنگ آزادی کی شروعات کرکے قبائلی علاقوں میں پاکستانی قبضہ کے خلاف جنگ کی اور اس بار جنگ آزادی کا دائرہ وسیع کرکے غیر قبائلی علاقے مکران تک پھیلا دیا تاکہ وہ مڈل کلاس مکران بھی اس بار شامل ہوسکے کیونکہ گزشتہ آزادی کی جنگوں میں مکران خاموش تھا۔

جب غیر قبائلی علاقہ مکران میں تحریک آزادی پھیلتا رہا تو کسی بھی مکرانی کے ذہن میں سردار، مڈل کلاس، غریب طبقہ لوئر کلاس اور کوئی طبقاتی سوچ نہیں تھا جب دشمن پاکستانی پنجابی کو معلوم ہوا کہ بلوچستان کے مرکز ( بندرعباس سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک مکران بلوچستان کے وسط میں آسکتا ہے) مکران جنگ آزادی طول پکڑ چکا ہے تو پھر اس نے شاطر دماغی سے 70 اور 80 کا حربہ استعمال کرکے غیر قبائلی مکرانیوں کو پھر سے بلوچ سرداروں کے خلاف اکسایا اس بار تین سردار تھے مینگل، مری اور بگٹی تھے جبکہ اس دوران مڈل کلاس آزادی پسند اور مزاحمتی چیمپیئن عوامی سپورٹ کو دیکھ کر اسے اپنی طاقت سمجھ کر وہ بھی سرداروں کے خلاف نکل گئے ( یہ واقعہ آزادی پسند شہید غلام محمد بلوچ کے بعد کا ہے) اور ہر جگہ حیربیار مری کے خلاف محاذ نہ صرف بلوچستان میں کھول دیا بلکہ عالمی سطح پر اپنے نمائندوں کو کام پر لگایا جو اب تک حمل اور اس کی لابی کی شکل میں موجود ہے۔

 

نواب اکبر بگٹی میدان جنگ میں قربان ہوگئے، نواب مری اور عطااللہ مینگل چل بسے اب تمام سرداروں اور سردار زادوں کے درمیان صرف اختر، حیربیار اور براھمدگ بگٹی رہ گئے ہیں۔ سردارزادہ اختر مینگل پارلیمانی سیاست کا رخ کرکے اس پر انحصار کرتا ہے جبکہ براھمدگ بگٹی آزادی پسند ہیں جو کہ باہر بیٹھے ہی اور باقی رہ گیا ہے حیربیار مری جس نے نواب مری کی وفات پر مری قبیلہ کے اندر سرداری نظام کے خاتمہ کا باقاعدہ اعلان کیا تھا اور خود کو بلوچ قومی تحریک کے ایک جہدکار کے طور پر پیش کیا۔ تاہم، اس کے پیچھے پڑے ہیں اور اس کی شخصیت اور افکار و کردار پر پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

 

یہ دراصل وہی نام نہاد لیڈروں کی باقیات ہیں جنہوں نے 70 اور 80 کی دہائیوں میں سرداروں کے خلاف نعرے لگا کر “ما ھون لوٹاں اوٹ نہ لوٹاں ” لیکن بعد میں قابض پاکستانی اسمبلیوں میں بیٹھ کر نہ صرف بلوچ عوام کا خون چھونس رہے ہیں بلکہ موجودہ تحریک آزادی کے لیئے رکاوٹ بھی بنے آرہے ہیں۔

اب موجودہ دور میں جو نام نہاد آزادی پسند سرداروں کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں یہ انہی کی باقیات ہیں یہ اپنا راستہ اپنے پیشروؤں کے ذریعے صاف کرکے پھر سے پارلیمنٹ تک پہنچنا چاہتے ہیں ـ کیونکہ ان کی باتوں اور حرکات و سکنات سے معلوم ہوا ہے کہ وہ نہ صرف سردار اختر مینگل و ڈاکٹر مالک سے جڑے ہیں بلکہ حد تو یہ ہوگئی ہے قابض پاکستانی فوج کے در پردہ پارٹی جماعت اسلامی کے ایک رہنما مولانا ہدایت الرحمان کی گوادر میں الیکشن کامیابی پر بغلیں بجا رہیں۔

 

اس حالت میں بلوچ قوم کیلئے لمحہ فکریہ یہ ہونا چاہیئے کہ ہمارے لخت جگر نے جو خون بلوچستان کی آزادی کے لیئے بہایا وہ 80 کی دہائی کی طرح رائیگان نہ جائے ـ

 

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ امریکی آزادی کے سربراہ اور لیڈر جارج واشنگٹن ایک قبائلی سردار اور بڑا سرمایہ دار تھا جس نے امریکہ کی آزادی کے لیئے برٹش ایمپائر جنگ لڑی اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا آج امریکی عوام ان کے پتلے کو دیکھ کر سر بسجود ہوتے ہیں، جمو کانیاتا کینیا کے آزادی کا لیڈر تھا اور ایک سرمایہ دار اور قبائلی سردار تھا، پیٹر دی گریٹ ایک شہزادہ تھا جس روس کو سپر پاور ریاست بنایا، جیولس نیریرے ایک قبائلی سردار جس نے تنزانیہ کو ایک آزاد ریاست بنایا یہ تمام قبائلی سردار، سرمایہ دار، شہزادے اور زمیندار تھے جس نے اپنے اپنے وطن کے لیئے قربانیاں دے غیروں کے قبضے سے آزاد کروایا لیکن ان ریاستوں کے کسی بھی باشندے انکار نہیں کیا کہ آپ قبائلی رہنما یا زمیندار و سرمایہ دار ہیں ہم آپ پر انحصار نہیں کرتے بلکہ انہوں نے ان شخصیات کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ تسلیم کرکے ان کی قیادت میں اپنے غلام سرزمین کو آزاد کروایا ـ

تاریخ میں دیکھا جائے تو دنیا کی اسی فیصد آزاد ریاستوں کے آزادی کے رہنما قبائلی، سرمایہ دار، زمیندار، شہزادے یا ایلیٹ کلاس کے شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دیسوں کو غیروں کے چنگل سے چھڑا کر آزادی دلا دیا ـ

 

حمل حیدر پارلیمانی ایک مخصوص گروپ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے پورے اور ادھورے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو کہ ڈاکٹر مالک نے اسی کی دہائی یہ حربہ استعمال کیا تھا آج حمل حیدر پاکستان پرست ایک پارلیمانی گروپ کے ساتھ مل کر بی این ایم کے فلیٹ پر سنگت حیربیار مری اور اس کے دوستوں کے خلاف پاکستانی بیانیہ کو آگے لے جا رہے ہیں اور ہر وقت ہر فورم پر حیربیار مری اور اس کے دوستوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں ـ

بلوچ نوجوان بھی اس معاملے پر سوال اٹھائیں اور خود اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا حمل حیدر اور ان کی مخصوص لابی کی جہدکاروں کی کردار کشی درست عمل یا نقصاندہ ہے؟

 

آخر میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں جب بھی سامراج اور قبضہ گیر کسی ملک و قوم پر جبراً قابض ہوتا ہے مظلوم و غلام قوم و ملک کے لیئے ان کی سامراجی پالیسیوں میں سے ایک اہم پالیسی یہ ہوتی ہے کہ اس مقبوضہ ریاست اور غلام قوم کے حقیقی لیڈروں کیخلاف کسی بھی صورت نفرت پیدا کیا جائے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہم چاکر و گوھرام کی دیتے ہیں پاکستان اور ایران نے ہماری موجودہ اور تاریخی لیڈروں اور قومی ہیروؤں کے لیئے ہمیں اس قدر نفرت سکھایا ہے کہ چاکر و گوھرام دو برادر کش سردار تھے، حمل جیئند کا کوئی وجود نہیں ہے وہ ایک سمندری ڈاکو تھا، دادشاہ ایک قاتل تھا، بالاچ ایک دھوکہ باز تھا، دوست محمد بارانزئی ایک سخت مزاج حکمران تھا، خان آف قلات نے اپنی خوشی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، نواب نوروز ایک قبائلی جاہل سردار تھا، نواب مری و نواب بگٹی ترقی مخالف اور بلوچوں کے دشمن سردار تھے، اب یہی نفرت پھیلایا جا رہا کہ حیربیار مری ایک سخت مزاج سردار زدہ ہیں کسی کا بھی نہیں سنتے ہیں بلکہ ان کے دل میں جو آتا ہے وہی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ حیربیار مری کے خلاف اس قدر زہر اگل دیا گیا ہے کہ وہ تحریک آزادی کے لیئے نقصاندہ ہیں، حیربیار مری نے پاکستان کے سامنے سرنڈر کیا ہے وہ اب تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنا چاہتے ہیں بہت جلد پاکستان میں آ کر پاکستانی پارلیمنٹرین بن جائیں گے۔

 

یاد رکھو جس نے اپنے لیڈروں کے خلاف نفرت سیکھا اور نفرت پھیلا دیا اسی دن آپ اپنی کمزوری کا اعلان کر رہے ہیں آپ اپنے آپ کو تقسیم کر رہے ہیں۔

اگر آپ سے کہا جائے گا کہ چاکر و گوھرام دو برادر کش تھے سامنے والے کو آپ یہ کہہ دیں ان کی آپسی جنگ میارجلی اور بلوچی کوڈ آف کنڈکٹ کی بنیاد پر ہوئی اور بلوچ کوڈ آف کنڈکٹس بلوچ کے قوانین ہیں۔

 

اگر آپ ایسا ہی زاویہ نظر اور اوچ رکھتے ہیں تو آپ کبھی بھی اس بات کو ماننے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ ھمل جیئند ایک سمندری ڈاکو تھا اور سامنے والے پھر آپ سے سوال نہیں کرے گا ـ

اگر آپ سے کہا جائے گا کہ حیربیار مری ایک سردار ہیں تو آپ ان سے پوچھیں کہ اپنے والد محترم کے وفات کے بعد اس نے کیوں اپنے قبیلہ میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا؟

Exit mobile version