دوشنبه, نوومبر 11, 2024
Homeخبریںبرطانیہ میں سیاسی بحران شدید، وزیرِ اعظم بورس جانسن کے مستعفی ہونے...

برطانیہ میں سیاسی بحران شدید، وزیرِ اعظم بورس جانسن کے مستعفی ہونے کا امکان

 

لندن ( ہمگام نیوز) برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن کی اپنی ہی کابینہ کے بیشتر وزرا کے استعفے اور پارٹی میں اختلافات کے بعد جانسن کے مستعفی ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق برطانوی وزیرِ اعظم جمعرات کو مستعفی ہو سکتے ہیں۔ اس سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم نے ڈٹ کر سیاسی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
برطانیہ میں کئی روز سے جاری سیاسی بحران کی وجہ حکمراں جماعت کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات اور وزیرِ اعظم بورس جانسن پر آئے روز نت نئے اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات بتائے جا رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کے کئی اراکین بھی وزیرِ اعظم بورس جانسن کو اس عہدے کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے اُن کے استعفے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
سیاسی بحران میں شدت اس وقت آئی جب بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی میں اختلافات کے بعد کابینہ کے 50 سے زائد وزرا نے اپنے استعفے پیش کیے۔ وزرا کے استعفوں کے بعد بورس جانسن پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جمعرات کو مزید آٹھ وزرا اور دو سیکریٹریز آف اسٹیٹس کے استعفے کے بعد پہلے بغاوت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عندیہ دینے والے جانسن اب مستعفی ہونے کے لیے پرتول رہے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق نوے سال کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم پر اتنی بڑی تعداد میں خود اُن کی اپنی جماعت کے وزرا عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔
جانسن کے کابینہ کے کئی اہم وزرا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں، حتیٰ کے بدھ کو وزیرِ خزانہ بننے والے ناظم الزھاوی بھی وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اپنی ایک ٹویٹ میں ندیم الزھاوی نے وزیرِ اعظم جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “حالات اب آپ کے لیے سازگار نہیں بلکہ مزید خراب ہوں گے۔ لہذٰا کنزرویٹو پارٹی بلکہ ملک کے لیے ضروری ہے کہ آپ ٹھیک کام کریں اور مستعفی ہو جائیں۔”

اس سے قبل بورس جانسن پیر کے روز ایوان نمائندگان میں ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کے دوران بورس جانسن ایک کمزور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئےہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی کے دوران ایوان میں حزب اختلاف سمیت انہیں اپنی ہی پارٹی کے 148 ممبران کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جانس اپنے خلاف اسکینڈلز پر عام طور پرتوجہ نہیں دیتے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں وہ اپنے اور ساتھیوں کے بارے میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران منعقد کی جانے والی پارٹیوں کی خبروں کے باعث سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز