بلوچستان میں داعش کی ممکنہ پیش قدمی حقیقت یا فسانہ

ہمگام اداریہ

مشرقی وسطیٰ میں تیزی سے ابھرتی ہوئی اسلامی شدت پسند جہادی تنظیم آئی ایس آئی ایس یا داعش (دولت اسلامی عراق و شام) اپریل 2013 میں القاعدہ سے اختلافات کے بعد ٹوٹ کر وجود میں آیا ۔ یہ شدت پسند تنظیم عراق اور شام میں برسرپیکار ہے ان کا دعویٰ ہے کہ عراق اور شام کے شیعہ نواز حکومتیں سنی نظریے کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ گو کہ ان کا ابتک نشانہ زیادہ تر شیعہ حکومت اور عمومی طور پر پوری شیعہ مسلک رہا ہے ، اب تک وہ ہزاروں کی تعداد میں شیعہ قتل کرچکے ہیں لیکن وہ اپنے سرحدوں کو وسعت دینے کیلئے سنی شدت پسند تنظیم النصریٰ فرنٹ اور اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے کردوں سے بھی لڑ رہے ہیں ۔ داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی ہے جنہوں نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ بھی نامزد کردیا ہے اور سب کو بیعت کرنے کا کہا ہے ۔ بغدادی اصل میں ابو معصب الزرقاوی کے پیروکار تھے ۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اردنی نژاد زرقاوی کو القاعدہ کے اندر شیعہ مخالف رجحانات کو پھیلانے کا موجب قرار دیا جاتا ہے وہ پہلے افغانستان میں ٹریننگ کیمپ چلاتے تھے بعد ازاں وہ القاعدہ کی بنیاد رکھنے عراق آگئے اور وہیں ایک امریکی حملے میں جاں بحق ہوگئے ۔ القاعدہ سے اختلافات کی بنیاد زرقاوی نے ہی رکھا تھا اس وقت سے ہی زرقاوی شیعہ مسلک کے خلاف شدید کاروائیوں اور اسلامی ریاست کے قیام کی وکالت کرتا تھا جس کے وجہ سے ایمن الزواہری اور زرقاوی میں شدید اختلافات تھے بعد میں یہی اختلافات بالآخر داعش کے قیام کا موجب بنے۔ماہرین داعش کے جدید جنگی طریقوں کی بنیادی وجہ صدام حسین کے بعث پارٹی کے سابق جنرلوں اور ماہرین کو گردانتے ہیں جنہوں نے داعش کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہوا ہے ۔مالی لحاظ سے داعش کو ایک انتہائی امیر تنظیم سمجھا جاتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر فنڈز کا زریعہ خلیجی ممالک خاص طور پر کویت اور سعودی عرب ، عراق و شام کے تیل کے کنووں اور آثار قدیمہ پر قبضے کے بعد حاصل شدہ آمدنی اور بھتہ خوری و اغواء برائے تاوان ہے ۔ ابتداء میں داعش نے اپنا مقصد عراق اور شام میں اسلامی ریاست قائم کرنا ظاھر کیا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنے اسلامی ریاست کا جو نقشہ سامنا لایا اس میں جنوبی ایشاء بھی شامل تھا ۔ اس کے بعد افواہیں گردش کرنے لگیں کہ داعش پاکستان تک پیش قدمی کرے گا اور اچانک بلوچستان میں وال چاکنگ کی صورت میں اسکا ظہور بھی ہوا اور اتفاق سے داعش کے نام سے کی گئی وال چاکنگ میں ان ذکری بلوچوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی تھی جو پہلے سے ہی پاکستانی خفیہ اداروں کے بنائے ہوئے مذہبی شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں ۔ اس وال چاکنگ کو لیکر میڈیا میں کافی شور مچا کہ داعش پاکستان میں آچکا ہے ، بعد میں اسی طرح کی وال چاکنگ اور ایک ویڈیو کراچی میں بھی منظر عام پر آئی ، افغان مہاجر کیمپوں میں داعش کا ایک کتابچہ بھی تقسیم ہوا اور بالآخر تحریک طالبان پاکستان کے پانچ کمانڈروں نے شاھد اللہ شاھد کے سربراہی میں داعش میں شمولیت کا اعلان کردیا اور ابوبکر البغدادی کو خلیفہ تسلیم کرلیا ، داعش کے اس ممکنہ پیشقدمی پر پاکستانی حکومت نے اس وقت تصدیق کی مہر ثبت کی جب 21 اکتوبر کو سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب مسعود خان نے داعش کو دہشت کا علامت ظاھر کرکے تمام اقوام کو اس کے خلاف مل کر لڑنے کا مشورہ دیا ، واقعات کے اس تسلسل سے ظاھر کیا جارہا ہے کہ داعش پاکستان کی طرف پیشقدمی کا ارادہ رکھتا ہے اور خاص طور پر اسکا ظہور بلوچستان سے ہوگا ۔ ان تمام قیاسات کے باوجود بہت سے تجزیہ نگار اور ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ داعش پاکستان میں کسی قسم کی پیشقدمی کا ارادہ رکھتا ہے ، تاریخی تسلسل کو دیکھا جائے تو اس خطے میں جتنے بھی اسلامی شدت پسند تنظمیں وجود رکھتی ہیں ان سب کے پشت پر القاعدہ اور پاکستانی خفیہ ادارے رہے ہیں ۔ داعش القاعدہ سے ٹوٹ کر بنا ان کے آپس میں ابھی تک چپقلشیں ہیں شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم النصریٰ فرنٹ اور داعش میں کئی چھڑپیں ہوچکی ہیں ۔ داعش کے بڑھتے مقبولیت کو دیکھ کر القاعدہ کسی طور تیار نہیں کہ جنوبی ایشیاء میں داعش کو قدم جمانے کا موقع دیا جائے اس لیئے گذشتہ ماہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اپنا ایک پیغام جاری کیا تھا اور اس میں اعلان کیا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں ایک اور شاخ کھولا جائیگا اور اس کے سربراہ بھارتی نژاد عاصم عمر ہونگے ۔ القاعدہ کے اس قدم کو داعش کے کاونٹر کرنے سے تعبیر کیا جارہا ہے اور دوسری طرف افغان طالبان مکمل طور پر القاعدہ سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ خلیفہ ملا عمر کو قرار دیتے ہیں اب تک انہوں نے کوئی بھی اعلان نہیں کیا ہے کہ آئیندہ ملا عمر کی جگہ بغدادی خلیفہ ہونگے اس لیئے اس گمان کو رد کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں داعش کو طالبان کی طرف سے کسی قسم کی تعاون حاصل ہوگی ۔ اسی طرح القاعدہ اور پاکستانی خفیہ اداروں کے تعلقات بھی اب ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہ بات بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ پچھلے سال پاکستان نے ترکی کی مدد سے کئی طالبان جنگجو النصریٰ فرنٹ کے مدد کیلئے بھیجے ہیں ، وہی النصریٰ فرنٹ جس کا داعش کے ساتھ کئی علاقوں کے کنٹرول پر جنگ چل رہی ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی خفیہ ادارے خود ایک منصوبے کے تحت یہ پاکستان میں داعش کے آمد کا افواہ پھیلا رہے ہیں اور ایک دہشت قائم کرنا چاہتے ہیں ہوسکتا ہے اس دہشت کو پھیلانے کی خاطر پاکستانی خفیہ ادارے کچھ چھوٹے موٹے گروپوں کو داعش کا حصہ بنوالے تاکہ یہاں معمولی کاروائیاں کرواکے اس دہشت کو مزید تقویت دی جائے کہ واقعی داعش پاکستان میں پیشقدمی کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ پاکستان ایک خوف قائم کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مزید مالی و فوجی امداد مغربی ممالک سے بٹور سکے ۔ اگر اسی تناظر میں بلوچستان سے داعش کے ظہور کو دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے پاکستان ممکنہ طور پر بلوچستان کو شدت پسندوں خاص طور پر داعش کا آماجگاہ قرار دینے کیلئے عالمی رائے عامہ ہموار کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں داعش کے خلاف آپریشن کے نام پر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف ایک بڑے پیمانے کا آپریشن مغربی ممالک کے خرچے پر شروع کرسکیں ۔ اس صورتحال میں بلوچ آزادی پسندوں کے سامنے یہ ایک بڑا چیلینج ہوگا کہ وہ اپنے سیکیولر اقدار کو نا صرف قائم رکھیں بلکہ دنیا کو بھی یہ باور کرائیں کے بلوچ ایک سیکیولر سماج کا مالک ہے اور یہاں کسی قسم کی کوئی شدت پسند تنظیم نہیں ماسوائے پاکستانی خفیہ اداروں کے پراکسی مذہبی گروہوں کے جو پاکستان نہیں بلکہ آزادی پسند بلوچوں کے دشمن ہیں اس لیئے پاکستان کیلئے کوئی بھی ممکنہ امداد ان مذہبی شدت پسند گروہوں کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کرنے کا باعث بنے گی اور اس خطے میں شدت پسندی کے خاتمے کا واحد حل آزادی پسند بلوچ سیکیولر قوتوں کو مضبوط کرنا ہے ۔