ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ کئی جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔ بی وائی سی قیادت کو جیلوں میں ڈال کر لوگوں کے دلوں میں خوف بٹھایا گیا تاکہ ان غیر آئینی اقدامات کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔
ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے یہاں شال پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ( وی بی ایم پی ) کے احتجاجی کیمپ میں کیا۔ وی بی ایم پی جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتی ہے۔
اتوار کے روز احتجاجی کیمپ کو 5811 دن ہوگئے ، بی ایس او کے سابقہ چیئرمین مہیم خان اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا رواں مہینے جعلی مقابلوں میں قتل کیے گئے کئی افراد کے نام ہمارے رکارڈ میں موجود جبری لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ حراستی قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
انھوں نے معروف ایڈوکیٹ جلیہ حیدر کے خلاف ماہ رنگ بلوچ کی حمایت پر ایف آئی آر کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ، انہوں نے کہا جلیہ حیدر بلوچستان میں انسانی حقوق کے ایک پزور حامی ہیں ، ان کے خلاف ایک متنازعہ قانون کے تحت بوگس ایف آئی آر کا اندراج منفی پیغام ہے ، اس سے مایوسی بھی پیدا ہوئی ہے اور غم و غصہ بھی ہے کہ پہلے سے اظہار آزادی کے تنگ دائرے کو مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ پہلے تو کسی سرگرمی پر لوگوں کو عدالتوں میں گھسیٹ کر انہیں پریشان کیا جاتا تھا ، اب سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کی بنیاد پر بھی لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں، گرفتاریاں کی جا رہی ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔