ڈیرہ غازی خان (ہمگام نیوز) بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلباء نے ڈی جی خان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ ہم آپ کی توجہ نہایت ہی اہم مسئلے کی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں جو کہ غازی یونیورسٹی کی جانب سے سیلاب زدہ طالبعلموں سے بھاری فیسیں وصول کرنا ہے۔ جس طرح آپ سب کو معلوم ہے کہ ڈیرہ غازیخان سمیت پورے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔سیلاب نے جہاں لوگوں کو بے گھر کیا ہے وہیں لاکھوں لوگ معاشی تنگدستی کے سبب فاقوں پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں غازی یونیورسٹی کی جانب سے فیسیں وصول کرنا ان علاقوں کے طالبعلم کےلیے ایک تباہ کن اقدام ہوگا جس سے ہزاروں طالبعلموں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔
پچھلے ایک مہینے سے جاری بارشوں کے باعث سیلاب جیسے قدرتی آفت نے بلوچستان اور سندھ کے بیشتر اضلاع سمیت ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو مکمل طور پر متاثر کیا ہے۔ تمام تر املاک کا سیلاب میں بہہ جانے کے سبب عوام معاشی حوالے سے انتہائی خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے لہذا اس طرح کے سنگین حالات کا ادراک رکھتے ہوئے مذکورہ علاقوں کے طالبعلموں کی فیس مکمل طور پر معاف کی جائے۔
صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ڈیرہ غازیخان ، تونسہ شریف ، راجن پور اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع اس وقت شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جس سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ عوام متاثر ہیں۔ شدید بارشوں اور سیلاب نے لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں بے گھر کر دیا ہے۔ لوگوں کے ضروری املاک سیلاب میں بہہ گئیں اور تیار فصلیں تباہ ہونے سے لاکھوں لوگ معاشی بد حالی کا شکار ہوگئے ہیں۔ سیلاب کے اس قدرتی آفت نے لوگوں کو بے گھر کرنے کے ساتھ سینکڑوں افراد کو لقمہ اجل بنایا۔ معاشی تنگدستی کے سبب اس وقت عوام کے پاس نہ صرف اشیا خورد و نوش کی کمی ہے بلکہ زندگی گزارنے کےلیے چھت تک میسر نہیں ہے۔ ان علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابی ریلوں نے ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جس سے نکلنا خطے کی عوام کےلیے نہایت ہی مشکل ہوگا۔
ڈیرہ جات اور بلوچستان کے پہاڑی و دیہی علاقوں سے طالبعلم بڑی تگ و دو کے بعد یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں جو کہ بمشکل اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اس وقت جب ہر طرف سیلاب نے تباہی مچا دی ہے اور لاکھوں لوگوں کو معاشی حوالے سے اجاڑدیا ہے وہیں ان علاقوں کے طالبعلموں کےلیے بھاری بھر کم تعلیمی اخراجات کو پورا کرکے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنا نہایت ہی مشکل ہو گا۔ مذکورہ خطے میں اس سے پہلے بھی خوانگی کی شرح نہایت ہی کم ہے اور نہایت ہی محدود تعداد میں طلباء و طالبات بنیادی تعلیم کے بعد اعلی تعلیم کے لیے جامعات کا رخ کرتے ہیں لیکن اس طرح کے حالات میں معاشی بدحالی کے باعث ہزاروں طالبعلموں کے تعلیمی تسلسل ضائع ہونے کا خدشہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک وفد نے غازی یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کی اور فیس معافی کےلیے طلباء و طالبات کی طرف سے درخواست جمع کرادی تھی۔ اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سیلاب زدہ طالبعلموں کے فیس معافی کےلیے اقدامات کریں گے۔ لیکن جب دوسرے دن تنظیم کی جانب سے انتظامیہ کو اپروچ کیا گیا تو انہوں نے صاف الفاظ میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی صورت ان علاقوں کے طالبعلموں کی فیسیں ختم نہیں کرسکتے۔ غازی یونیورسٹی جو کہ ڈیرہ غازیخان ڈویزن کے 50 لاکھ سے زائد آبادی کا واحد اعلی تعلیمی ادارہ ہے ان کی جانب سے اس طرح کا رویہ افسوسناک ہے۔ ان حالات میں غازی یونیورسٹی کو ڈیرہ غازیخان کے سیلاب زدہ طالبعلموں کی فیسیں معاف کرکے لوگوں کو اس آفت سے نکلنے میں مدد کرنی چاہئے تھی لیکن غازی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے غیر انسانی رویہ اپنایا جا رہا یے۔
طلباء نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکومت وقت اور غازی یونیورسٹی سمیت ملک بھر کے تمام جامعات سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن سمیت بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے تمام طالبعلموں کی سیمیسٹر فیسز معاف کرکے اس انسانی بحران سے نکلنے میں لوگوں کی مدد کریں۔ تاکہ ان علاقوں کے متاثرہ اور زبوں حالی کا شکار طالبعلم سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب اپنی تعلیمی سلسلے کو ترک نہ کریں۔ غازی یونیورسٹی کی جانب سے اگر ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو ہم بطور طلباء تنظیم تمام تر پرامن احتجاج کے حق محفوظ رکھتے ہیں۔