کوئٹہ(ہمگام نیوز)جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کے رہنماؤں پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ،شاہ علی بگٹی، نذیر احمد لہڑی، پروفیسر عبدالباقی جتک، عنایت اللہ بڑیچ، نجیب اللہ ترین، فرید خان اچکزئی، سید شاہ بابر نے اپنے ایک بیان میں اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ جامعہ بلوچستان کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے دو طلبا سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ جن کو یکم نومبر 2021کو جامعہ بلوچستان کے بوائز ہاسٹل سے اغوا کیئے گئے کو اب تک بازیاب نہیں کرایا گیا جس سے طلبا وطالبات، اساتذہ کرام و ملازمین میں سخت تشویش پایا جاتا ہیں، انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان پر مسلط غیر قانونی وائس چانسلر نے طلبہ سے ہمدردی اور اغوا شدہ طلبہ کی بازیابی کیلئے کوششوں کی بجائے سردمہری اور ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا.اور وائس چانسلرکی طرف سے مسلسل یہ کہا جارہا تھا کہ دونوں طلبا جامعہ کے حدود سے باہر اٹھائے گئے ہیں جس سے ان کا کوئی سروکار نہیں اور مسلسل مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور ان کو دھمکیاں دیں کہ اگر طلبا نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا اور دھرنا ختم نہیں کیا تو ان کو بھی اٹھایا جائے گا جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان نے پہلے دن ہی لاپتہ طلبا کی فوری بازیابی اور طلبا،اساتذہ کرام و ملازمین کو تحفظ دینے اور جامعہ بلوچستان و دیگر تعلیمی اداروں سے فورسز کی انخلا کا مطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ سب کو علم ہے کہ جامعہ بلوچستان صوبے کی سب سے بڑی مادر علمی ہے جامعہ بلوچستان و دیگر جامعات کو چلانے کے لیے صوبائی اسمبلی سے ایکٹ پاس کیے گئے ہیں جس میں وائس چانسلر کی تعیناتی سے لے کر تمام امور کو چلانے کے لئے پالیسی ساز ادارے جس میں سنڈیکیٹ,اکیڈمک کونسل, سینیٹ اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی تشکیل دیے گئے ہیں جن کے درج شدہ شیڈول کے مطابق اجلاس ہونے چاہیے تاکہ وائس چانسلر سمیت دیگر اعلی انتظامی آفیسران ان پالیسی ساز اداروں کے منتخب اور دیگر ممبران کو جوابدہ ہوں اور تمام امور کو مشاورت سے چلایا جا سکے لیکن جب سے موجودہ وائس چانسلر کی غیر قانونی تعیناتی ہوئی ہے انہوں نے کسی بھی پالیسی ساز ادارے کا اجلاس منعقد نہیں کیا ہے جب کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود بھی پالیسی ساز اداروں کے اجلاس بلانے سے انکاری ہیں اور غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کی ہٹ دھرمی اور مسلسل غلط بیانی سے جامعہ تعلیمی, تحقیقی اور انتظامی لحاظ سے مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے جامعہ بلوچستان میں اساتذہ، آفیسرز، ملازمین اور طلبا وطالبات آئے روز احتجاجی مظاہروں میں مصروف ہوتے ہیں کیونکہ انکے چھوٹے چھوٹے مسائل کی بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ ایچ ای سی نے بھی اپنی رپورٹ میں موجودہ وائس چانسلر کو یونیورسٹی کے امور کو 1996 کے ایکٹ کے مطابق چلانے میں ناکام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ کے اہم پوزیشنز جیسا کہ رجسٹرار،کنٹرولر امتحانات، چیف لائبریرین، ڈی جی اسٹوڈنٹس آفیئرز, خزانہ آفیسر, ڈی جی پلاننگ اور دیگر تمام ریسرچ سینٹرز کے ڈائریکٹرز کو ایڈ ہاک ازم اور من پسند افراد کے ذریعے چلایا جا رہا ہیجس سے میرٹ کی پامالی اور ون مین شو کو تقویت ملی۔بیان میں مطالبہ کیا کہ جامعہ کے ہاسٹل سے اغوا شدہ دونوں طلبا کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔ اور مستقبل میں طلبا، اساتذہ کرام، آفیسرز اور ملازمین کو تحفظ فراہم کیا جائے، جامعہ بلوچستان و دیگر اعلی تعلیمی اداروں سے فورسز کی انخلا یقینی بنایا جائے، غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کو فوری طور پر برطرف کرکے کسی علم و صوبہ دوست پروفیسر کو وائس چانسلر متعین کیا جائے تاکہ جامعہ بلوچستان کو 1996 کے ایکٹ کے مطابق چلایا جا سکے۔