Homeخبریںبلوچ قوم کی دشمن ملٹی نیشنل کمپنیاں نہیں بلکہ نوآبادیاتی قوتیں ہیں...

بلوچ قوم کی دشمن ملٹی نیشنل کمپنیاں نہیں بلکہ نوآبادیاتی قوتیں ہیں ،؛ بلوچ سالویشن فرنٹ

کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ وطن موومنٹ بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ اور بلوچ گہار موومنٹ پر مشتمل الائنس بلوچ سالویشن فرنٹ نے اپنے جاری کئے گئے مرکزی ترجمان میں بلوچ راہشون شہید صباء دشتیاری شہید ورنا محراب جان احمد زئی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ شہداء نے آزاد و باوقار مستقبل کے لئے جانیں داؤ پر لگاکر جدوجہد کی وہ آجوئی کے امام ہے ان کی تاریخی کردار نہ صرف بلوچ قوم کے لئے مشعل راہ ہے بلکہ دنیا کے آزادی کے تحریکوں کے لئے بھی وہ مثالی ہے آزادی کی تاریخ انہیں احترام اور عقیدت کے ساتھ ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتی رہے گی ترجمان نے کہاکہ آزادی کا حصول قربانیوں اور جدوجہد کا متقاضی ہے یہ تحفہ کے طور پر نہیں ملتی بلکہ اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے اگر بلوچ جدوجہد نہ کرتے اور ہاتھ باندھ کر خاموشی کا روزہ رکھتے تو عالمی دنیا بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت سے نابلد ہوتے بلوچ شہداء نے اپنی کوششوں اور بے لوث قربانیوں سے بلوچ قوم کی وجود اور حیثیت کو زندہ رکھاہے اگر بلوچ قوم کے پاس قربانی دینے والے سپوت نہ ہوتے تو دنیابلوچ قوم کوریڈ انڈین کی طرح یاد کرتے ترجمان نے کہاکہ بلوچ قوم کو عالمی سرمایہ داری نظام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کوئی خطرہ نہیں کچھ بلوچ پارٹیوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا فو بیا ہوگیا ہے بلوچ قوم کا دشمن ملٹی نیشنل کمپنیاں نہیں بلکہ نو آبادیاتی قوتیں ہے جو بلوچ قوم کو اپنی نوآبادی اور غلام بناکر بلوچ وسائل پر گھات لگائے اسے لوٹ رہے ہیں بلوچ قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے اور اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مد مقابل کھڑاکرنے کی کوشش بلوچ نیشنلزم سے نابلدی ہے بلوچ قومی تحریک ایک انسان دوست تحریک ہے آج امریکہ اور دیگر قوتیں بلوچ سرزمین پر قابض نہیں بلکہ بلوچ سرزمیں پر پاکستانی وایرانی نوآبادیاتی قوتوں کا تسلط ہے بلوچ آزادی پسند بعض حلقوں کی جانب سے بلوچ قومی سوال کا رخ موڑنے کے لئے دیدہ دانستہ ابہامی موقف پھیلاکر عالمی قوتوں کو بلوچ دشمن قرار دیکر بلوچ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جارہاہے ترجمان نے کہاکہ صباء دشتیاری آذادی کے محاذپر ایک قومی و نظریاتی استاد کے طورپرایمانداری ثابت قدمی اور جرائت کے ساتھ ساتھ پیش پیش رہے وہ پچھتاوے اور تذبذب سے پاک ایک ایسے مقصد سے وابسطہ تھے جو ایک آزاد و روشن بلوچ مستقبل کے سوا کچھ نہیں تھاشہید صبا دشتیاری شروع ہی سے ایک آزادی دوست انسان تھا لیکن اس کی جدوجہد اور بلوچ دوست سیاسی کیریئر کا باضابطہ شروعات 2006 کے بعد کے سالوں میں زیادہ واضح اور نمایاں نظرآئے ان کا بلوچ سرکلوں میں شرکت سیمینار و ریفرنس اور جلسوں میں حاضری میں تیزی آئے وہ جہاں بھی جاتا کھل کے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ دہراتا رہا وہ اپنے سلوگن پر سختی سے ڈٹے رہے دوسرے وظیفہ خور دانشوروں کے برعکس استاد صباء نے مصلحت اور کمپرومائز کے ہر شکل کو مسخ کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے ریاست اور ریاستی حلقوں کی جانب سے اس پر دباؤ کا پیدا ہونا ایک ناگزیر عمل تھا پریشر بڑھانے کے یہ ہتکھنڈے کوئی انہونی واقعہ نہیں تھا بلکہ ہر بلوچ آزادی پسند کو اس طرح کے صورتحال کا مسلسل سامنا ہوتا آرہاہے صباء نے کسی دباؤ اور خوف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے برابر آگے بڑھتے ہوئے آزادی کے صفحوں میں رہ کر جدوجہد کونئے خون اور تازہ دم ریکرومنٹ دینے کی روایت کو تسلسل دیا ترجمان نے کہاہے جس سنگین صورتحال کا سامنا شہید صباء کررہے تھے ایسی صورتحال سے دنیا کا کوئی آزادی پسند اب تک محفوظ نہیں رہا ہے شہید صبا دشتیاری کا کردار اور جدوجہد بلوچ سماج کے ان ادیبوں سے بلکل الگ اور منفرد ہے جو ادب اور زانت کے نام پر بلوچ اور ریاست کو لازم و ملزوم قرار دیکر علم اور زانت کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلوچ ادباء کو صباء دشتیاری جیسے استاد اور زانت کار کی کردار اور عمل سے رہنمائی لینی چاہیے انہیں ان کی زندگی جدوجہد اور قربانیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو دھونس و دھمکیوں کے باوجود آزادی کا راستہ نہیں چھوڑے اور اسی راہ عمل میں اپنی جان قربان کی ان کا نام اورآخری یادگار ہزاروں سال تک لوگوں کے لئے عقیدت اور احترام کا باعث بنے گی ترجمان نے کہا کہ بلوچ سماج میں ایسے کئی دیگر ریڈی میڈ ادیب موجود ہے جو بلوچ نوجوانوں کی آزادی جدوجہد سے وابستگی کو جذباتی پن قرار دیتے ہوئے اپنے وظیفہ بڑھانے کی کوشش کی لیکن کیا ان کی نظر میں صباء بھی جذباتی تھا؟ صبا تو عمر کے حوالہ سے نوجوان نہیں تھا لیکن ایک بات واضح ہے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے آزادی کا مطالبہ کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ ایک پختہ قومی سوچ ہے دنیا کے تمام اقوام آزادی پر یقین رکھتے ہیں سکاٹ لینڈ کے تمام لوگ نوجوان یا نا بالغ نہیں جو برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں جو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط ہے انہیں زندگی کے تمام سہولیات حاصل ہے آزادی کا تعلق محرومی و غربت سے نہیں غربت تو پیدا کردہ ہے یہ فطری طور پر نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق وراثت سے ہوتا ہے ریاست قومی آزادی کے مطالبہ کو ہمیشہ محرومی اور غربت سے جوڑنے کی کوشش کرتاہے دنیا کے مضبوط معیشت کے حامل اقوام اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے آج بلوچ قوم اگر معاشی طورپر ایک کمزور قوم ہے تو یہ اس کا مقدر نہیں یہ پیدا کردہ مسلط کردہ ہے اس کا زمین غریب نہیں ہے یہ سونا اگلتے زمین ہے یہ پٹرول اور گیس کا مالک ہے اس کا سمندر ہے اس کی زرعی زمینیں ہے اس کے پاس سب کچھ لیکن آزادی نہیں تاریخ کی کسوٹی پر شہید صباء کے نظریات درست اور سچ ثابت ہوں گے ۔

Exit mobile version