کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان گہرام بلوچ نے قابض ریاست پاکستان کی ’پر امن بلوچستان ‘ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے کہا کہ بلوچ نسل کشی کی پالیسی کو ‘پر امن بلوچستان‘ کا نام دینا اس نسل کشی کو وسعت دینے کا نیا فارمولاہے تاکہ بلوچ جد و جہد آزادی کو کچلنے کیلئے بد ترین مظالم کا آغاز کیا جائے کہ گویا وہ مظالم جو بلوچستان پر جبری قبضہ کے بعد سے جاری ہیں کافی نہیں تھے۔ آج مقبوضہ بلوچستان میں ایک گرینڈ آپریشن جاری ہے، جس میں زمینی اور فضائی افواج حصہ لے رہی ہیں۔ مشکے میں 30 جون سے زمینی و فضائی کارروائیوں میں شدت لائی گئی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی گاؤں پر حملہ کرکے گھروں کو لوٹنے کے بعد جلایا، نہتے شہریوں کو گرفتار و لاپتہ کرکے ٹارچر چیمبرز میں قید کیا جاتا ہے جہاں وہ انسانیت سوز تشدد سے شہید ہو جاتے ہیں اور اگلے دن ان کی لاشیں اپنی پرانی پالیسی ’ مارو اور پھینک دو‘ کے تحت کسی جنگل، سڑک، ویرانے میں پھینک دی جاتی ہیں۔ اسی دوران صرف مشکے میں کئی حملوں میں درجنوں بلوچوں کو اغوا و شہید کیا جا چکا ہے۔ میہی، گجّلی، زُنگ، کوہ اسپیت، نوکجو و گورکائی سمیت کئی علاقے مسلسل فوجی آپریشن کی زد میں ہیں۔ ان علاقوں میں بے شمار گھروں کو جلا کر سینکڑوں افراد کو بے گھر کرکے تمام جنگی اصولوں و انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں۔ عید الفطر کے روز 18 جولائی سے آواران میں وسیع پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔ وہاں فوج نے اب تک متعدد گاؤں جلا ئے اور بمباری سے تباہ کیے ہیں، درجنوں عام بلوچ شہید و زخمی اور سینکڑوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقے آج بھی فوجی محاصرے میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے کولواہ بزداد میں تین دیہاتوں کو جلا کر خاکستر کردیا گیا۔ دو دن سے گیشکور میں جاری آپریشن میں کئی گھروں کو جلانے اور اب تک آمدہ اطلاعات کے مطابق دومعصوم بلوچ چرواہوں کو شہید کیا گیا ہے۔ لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اسکے علاوہ پنجگور، پسنی اور بالگتر میں بھی فوجی جارحیت عروج پر ہے جہاں ایک مہینے میں سو کے قریب نہتے بلوچوں کو اغوا کیا جا چکا ہے۔ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) کی راہ ہموار کرنے کے لئے بالگتر، شاپک، شہرک، گیشکور، آواران سمیت کئی علاقوں سے ہزاروں بلوچوں کو فوجی طاقت کے زور پر نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ فوجی کارروائیاں بلوچستان کے طول و عرض میں شدت سے جاری ہیں۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، مستونگ، نوشکی سمیت تمام علاقوں میں آپریشن اور مکینوں کو علاقہ بدر کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ اس گرینڈ آپریشن کا جائزہ لینے اور اس میں مزید شدت لانے کیلئے گزشتہ روز پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور اپنی بلوچ نسل کش پالیسیوں کو ’پرامن بلوچستان‘ پالیسی کا نام دیا، جو آج کا سب سے بڑا جھوٹ اور فریب ہے۔ ہزاروں بلوچوں کو شہید و ٹارچر چیمبرز میں اذیتیں دینے کے بعد مالی امداد، ایمنسٹی یا عام معافی بلوچ قوم کے ساتھ مذاق اور دنیا کے سامنے اپنے مظالم چھپانے کیلئے ایک نئے ڈرامے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ بلوچ جہدکار و سرمچار کسی پیسے یا لالچ کی بنیاد پر قربانیاں نہیں دے رہے ہیں بلکہ انہیں اپنا وطن عزیز ہے اور آزاد بلوچستان کیلئے رضاکارانہ طور پر اس جدو جہد کا حصہ ہیں۔ لہٰذا آزادی پسند قابض پاکستان کی جانب سے جہد ترک کرنے پر مالی امداد کی باتوں کو صرف ایک ڈرامہ تصور کرتے ہیں ۔ ’پرامن بلوچستان‘ پاکستان کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں کیونکہ امن کا دشمن پاکستان ہے جو آئے روز اپنی وحشی فوج کے ذریعے نہتے بلوچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردی کی نئی مثالیں قائم کر رہا ہے اور دوسری طرف آزادی کی جدو جہد کرنے والوں کو دہشت گرد گردان کر بلوچ قوم پر ظلم کے پہاڑ گرا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آزادی ہر قوم کا حق ہے اور بلوچ قوم اپنی ہزاروں سالہ علیحدہ شناخت، زبان و ریاست کو حاصل کرنے کیلئے جدو جہد میں مصروف عمل ہے۔ ایمنسٹی یا عام معافی کا اعلان بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے کیونکہ بلوچ نے کسی پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ ظلم بلوچ پر ہو رہا ہے۔ یہ فیصلہ بلوچ قوم کریگی کہ وہ قابض پاکستانی ظالموں کو ایمنسٹی یا عام معافی دینگے یا نہیں۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہئے کہ بلوچستان کی آزادی کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی مظالم و گرینڈ آپریشن کا بلوچ قوم و بلوچستان لبریشن فرنٹ میں مقابلہ کرنے کی ہمت و سکت ہے۔ خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ حواس باختگی میں کبھی گرینڈ آپریشن، کبھی عام معافی اور کبھی دھمکی سے بلوچ جہد آزادی کو کچلنے کے اعلانات کرتی رہتی ہے۔ ہزاروں شہیدوں، پاکستانی زندانوں میں اذیتیں سہنے والوں، جد و جہد میں مصروف عمل جہد کاروں کی قربانیوں کا حاصل آزاد بلوچستان ہی ہوگا۔