ہمگام اداریہ ،؛ ماضی میں جب برطانوی سامراج نے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں اپنے مفادات اور سرمایہ دارانہ نظام کو محفوظ رکھنے سابق سویت یونین کی ریاست اور سوشل ازم کو یورپ و جنوبی ایشاء اور سنٹرل ایشاء میں تیزی سے پیھلنے سے روکنے کی خاطر طویل منصوبہ بندی سے کام لیتے ہوئے بعض ممالک کو غیر فطری طور پر اپنے وقتی و طویل مفادات کو ملحوط خاطر رکھ کر تقسیم کیا بعض کو مزہب و ملت اور کچھ کو جغرافیائی و زبان کی بنیاد پر زبردستی تقسیم کی بنیاد رکھی۔اور برطانوی سامراج کی انھی طفیلی ریاستوں نے قوموں کے حقوق سلب  کرنے کی موجب بنے۔ جبکہ دنیا میں جہاں بھی قومی ریاستیں وجود رکھتی ہے وہاں پائیدار امن ، سکون ،تعلیم و ترقی قائم و دائم ہے۔ جبکہ اس کے برعکس جہاں قوموں کی آزادی کو سلب کرکے نوآبادیاتی نظام کو ان پر مسلط کیا گیا وہاں مستقل بد امنی ، غربت کو کسی نے نہیں روک سکا۔ برصغیر ہند کی تقسیم اور مقبوضہ بلوچ گلزمین کی مشرقی حصہ کو پاکستان کے زیر دست لانے کیلئے ان کی خاطر آسانی پیدا کی گئی جبکہ مغرب کی جانب سے گولڈ سمتھ لائن اور شمال کو ڈیورنڈلائن کے زریعئے سے بلوچ ریاست کو پہلے تقسیم و بعد میں قبضہ کیا گیا۔ جس کیلئے بلوچ قوم اپنی فطری بنیادی قومی آزادی کی خاطر روز اول سے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ جیسے کہ حالیہ دو دہائیوں سے بلوچ قومی نجات کی تحریک برائے قومی آزادی ہر سطح پر زوروشور اور اپنی مقبولیت سے جاری و ساری ہے ۔ ان حالات میں 9/11 کے بعد دنیا کی سیاست میں بڑی تیزی سے بدلاو آرہی ہے ۔ ایک زمانے سےدنیا کی سیاسی،معاشی ،عسکری،سائنسی، اور میڈیاں کی طاقت برطانیہ و امریکہ کے ہاتھوں میں رہی ہیں۔باریک بینی سے دیکھا جائے تو انھی قوتوں نے ہر جنگ میں جیت کی پلڑاکو اپنی طرف موڑ دیا ہے ۔مثال کے طور پر سابقہ وسیع و طاقتور سلطنتوں میں سے ترک خلافت عثمانیہ ،سابق سویت یونین ،سابق یوگو سلاویہ اور برصغیر ہند میں طاقتور مغلوں کی حکومت اور ماضی قریب میں بغداد و کابل پر چڑھائی کو انھی کے منصوبہ سازوں نے تحس و نحس کیا۔اب خوش قسمتی دیکھئے 2 دہائی قبل بلوچ راہشونز نے وقت و حالات کی ادراک کرتے ہوئے پیش بین کے طور پر بلوچ قومی سیاست کی رخ کو سابقہ آئیڈیل ازم اور سوشل ازم کی بھول بھلیوں سے نکال کر ریئل ازم یعنی خیالی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا والی سیاسی قوتوں کے ساتھ چلنے کی طرف قوم کی جہد کا قبلہ متعین کیا جو کہ کچھ معروضی داخلی مسائل کو چھوڑ کر مجموعی طور پر نہایت مطمئن کن انداز میں اپنی سفر کامیاب منزل کی جانب روا دوا ہے۔اس بات کا اندازہ قوم کے حقیقی جہدکاروں کے ساتھ ،ساتھ بلوچ دشمنوں کو بھی بخوبی ہوچکا ہے ۔کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی بدولت بلوچستان تو ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا یے۔جس کیلئے انھوں نے مشترکہ منصوبہ بندی کا فیصلہ کرکے اس کے خلاف کام کرنے کی خاطر وقتا فوقتا میٹنگز کرتے رہتے ہیں۔جن میں کچھ دنوں پہلے بلوچ گلزمین پر قابضین ایران و پاکستان کے اعلی سطح کے حکومتی سربراہان جن میں مشرقی بلوچستان پر قابض پاکستانی اور مغربی بلوچستان پر قابض شیعہ ایرانی گجر اپنی 30 رکنی وفد کے ہمراہ وزارت خارجہ کے اعلی سطح پرپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا دورہ کیا۔ وزارت خارجہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط روابط کی ایک کڑی ہے اور اس کا مقصد دوطرفہ ایران و پاکستان کی ایک دوسرے کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کو وسعت و مضبوط بنانا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ترجیحی تجارتی روابط، آزاد تجارت میں بدلیں گے۔جب کہ اس وقت ان کی دوطرفہ تجارت کا حجم لگ بھگ ایک ارب ڈالر ہے جس میں اضافے کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے کوششیں کی جا رہی ہے لیکن ایران کی ملا رجیم کی سیاست نے ان کو عالمی سطح پر تنہا کردیا یے۔جس کی وجہ سے انھیں دوسرے ملکوں کے ساتھ آزادانہ تجارت میں مشکلات کا سامنا رہتا ہیں۔ اب تک ان دونوں ممالک کو اس میں کوئی قابل ذکر تجارتی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔اس بار دونوں وزرائے خارجہ نے پاک ایران بزنس فورم سے بھی خطاب کیا جس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دوطرفہ تجارت کو 2021 تک 5 ارب ڈالر تک لیجائینگے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف تین روزہ دورے پر پاکستان میں گزارا جہاں بظاہر اُن کی ملاقاتوں کا محور دوطرفہ تجارتی اور اقتصادی روابط کو وسعت اور پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا تھا ۔لیکن در حقیقت بلوچ قوم کےان ازلی دشمنوں کا تیز ترین آپسی روابط بیک ڈور خفیہ سازوباز کسی صورت تجارت تک معدود نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ وہ درپردہ بلوچ قوم کو نیست و نابود رکھنے کیلئے جاری بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو بلوچ ہی کے نادان یا غیر سیاسی حلقوں سے اپنے جاری روابط کے زریعئے سبوتاژ کرنے کی جامع منصوبہ بندی اورخاص حکمت کے ساتھ پلان بنایا ہوگا۔ بلوچ گلزمین کے ان ازلی دشمنان اے بلوچ پاکستان و ایران نے اپنے قبضہ کو دوام بخشنے کیلئے قابضین نے آپسی رابطہ کاری کو جاری رکھنے اور مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہیں۔ ایرانی وزیر خاجہ جواد ظریف کے ہمراہ آنے والے وفد میں ایران کی اعلیٰ کاروباری شخصیات بھی شامل تھے۔ اور اس دورے میں دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورت حال پر بات چیت کے علاوہ تجارت کو مزید بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔مشرقِ وسطی کی کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے دورہِ پاکستان کو عالمی میڈیا اور سیاسی مبصرین بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب سعودی عرب سے امامِ کعبہ ڈاکٹر صالح بن محمد بھی پاکستان کا سیاسی و سرکاری دورہ کرچکے ہیں اور انہوں نے بھی اسلام آباد میں پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین، وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقاتیں کی تھی ۔ جواد ظریف سے ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا اور اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ ایران پاکستان پائپ لائن کو عملی جامہ پہنانے میں جو مسائل درپیش ہیں، اسلام آباد ان کے حل کے لیے کام کرے گا۔ایران اپنے حصے کی پائپ لائن پر کام کر چکا ہے۔ شاہد خاقان نے کہا ہمیں بغیر کسی خارجی و علاقائی دباؤ کے آئی پی کی تکمیل کرنی چاہیے۔ بقول ان کے اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے میں بھی امن و استحکام آئے گا۔‘‘ حالانکہ حقیقت میں اس دورے کا یہ مقصد بھی ہے۔کہ ان ایرانی تحفظات پر بات چیت کرنا ہے، جو پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوج بھیجنے کے فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ بات بھی خارج امکان نہیں کہ خطے کی صورتِ حال اور جیو پولیٹکس اس دورے کا محور رہا ہے۔پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوج بھیجے جانے پر تہران پریشان ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان خود ریاستی سطح پر پراکسی بنا ہوا ہیں اور وہ اپنے تعلقات ومفادات عربوں سے مستحکم و قائم بھی رکھنا ہیں۔جبکہ امریکی خطرے کے بارے میں بھی وہ سوچتے ہیں۔اور دوسری طرف پاکستان کیلئے بلوچستان کے مشترکہ مسئلے کیلئے ہر حال میں ایران کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ پاکستان کی فوج کے ایک وسیع حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے سابقہ سویت یونین و نام نہاد مجاہدین کے نام پر امریکہ کی جنگ کو افغانستان میں امریکا کے لیے ہم نے لڑائی لڑی۔ اور ان کا یہ ایک حلقہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ابھی ہم نے، اس حقیقت کے باوجود کے ہماری پارلیمنٹ نے یہ قرارداد پیش کی تھی کہ سعودی عرب فوج نہ بھیجی جائے لیکن پھر بھی ہم نے فوج بھیج دی ہے، جس سے ایران کو شکایت ہے۔ بقول پاکستانیوں کے ایک حلقے کے کہ ہمیں اس شکایت کو ضرور سننا چاہیے اوراپنی فوجوں کو کہیں بھی دوسروں کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خراب معیشت کی صورتحال پر ان کی مزدوروں کو نکالنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں اور وہ فوراﹰ ڈر جاتے ہیں۔ اس ڈر کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کو خوب دبایا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں نے انھیں مزید دبایا اور اب سعودی عرب دبا رہا ہے ۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ پاکستان کے عسکری اور سیاسی قیادت دونوں سے ملا ہے ۔اور انہیں اس یقین دہانی پر بھروسہ ہے، جو پاکستان کے آرمی چیف نے تہران کو کچھ مہینے پہلے کرائی تھی کہ پاکستان کی فوج ایران کے خلاف ہر گز استعمال نہیں ہوگی۔‘ اس بات کا زکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اس دورے کا مقصد افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، خطے میں امریکی موجودگی اور ایران پاکستان پائپ لائن سے متعلق ہے۔ شام و عراق سے بھاگ کر بڑے پیمانے پر داعش کے کارندے افغانستان گئے ہیں، جس میں ایک بڑی تعداد روسی شہریوں کی بھی ہے۔ داعش کی موجودگی نہ صرف ایران بلکہ پاکستان اور روس کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اسی لیے ایران پاکستان کے ساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنا چاہتا ہے۔‘‘ اس خطے میں بڑی طاقت امریکہ کی موجودگی ایران سمیت خطے کے سارے ممالک کے لیے پریشان کن ہے۔ ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کو معلوم ہے کہ امریکہ داعش کا بہانہ بنا کر یہاں طویل قیام کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر اس خطے میں اپنے مفاد کے خلاف دو طاقتوں داعش اور بلوچ قومی تحریک کو اپنے مفاد کے خلاف خطرہ سمجھ کر ختم کرنا چاہتے ہیں، جس میں ان کو اس خطے کے کچھ دوسرے ممالک کی بھی در پردہ حمایت حاصل ہوگی۔ ان کے بقول جب داعش اس خطے سے ختم ہوجائے گی تو امریکا کا افغانستان رکنے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔ان حالات میں دوسرے قوموں کی طرح اب بلوچ قوم کے فرزندوں کو چائیے کہ وہ صرف اپنے قومی مفاد کیلئے کامیاب، سیاسی راہ اور مستحکم و مضبوط پائیدار راہ کا انتخاب کرنا چائیے یعنی دوسرے فریق کی داخلہ و خارجہ سطح پر کامیاب سیاست کو مدنظر رکھنا چائیے۔یاد رہے امریکہ کی اس خطے میں موجودگی سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک پر مستقبل میں طویل مدتی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔آج کی اس دنیا میں بیشتر قومیں اپنی جنگ نان اسٹیٹ ایکٹر ہی کے زریعئے دوسرےتباہ حال قوموں کی سرزمین پر لڑتے رہتے ہیں۔جیسے کہ اب روس،پاکستان اور ایران اپنی جنگ طالبان کے زریعئے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔توسیع پسند اور رجعت پرست ایران سعودی عرب اور عرب اتحاد کے خلاف یمن میں حوثیوں کے زریعئے جنگ لڑ رہی یے۔جہان تباہی و نقصان سب سے زیادہ یمنیوں کا ہورہا یے۔نہ کہ سعودی عرب و ایران کا۔حوثی جنھیں ایران نے غربت و جنگ سے تباہ حال یمن میں شیعہ ازم کی بنیاد پر اکھٹا کرکے ہر طرح سے کمک کررہی ہے۔اور یہ بات یعقینی ہے کہ ایران اس جنگ کو جیت نہیں سکتا البتہ اس خطے میں ٹینشن ضرور باقی رہے گی۔جبکہ ایران یمن کے حوثی والے تجربے کو بلوچستان میں استعمال کررہی ہے۔بلوچ گلزمین کے بدولت ایران کے ہاتھوں بلوچ ہی سے شامل تنظیم کے خاص طبقہ کو معمولی مراعات کے بدلے بلوچ قوم کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے دور رکھ کر فاصلہ پیدا کرنے کا موجب بنا ہو اہے۔انسانی عقل کا تقاضہ یہی ہے کی غلط راستے پر مزید آگے چلنے سے جتنا ممکن ہو اس غلط راستے کو جلدی سے چھوڑ کر واپس اپنے پہلے اور اپنی قوم ہی کے آزادی کاروان کے راہ پر واپس گامزن ہو۔تو اس میں قومی نقصان اتنا ہی کم ہوگا۔اب جتنا جلدی ممکن ہو دشمن کے راستے کو چھوڑ کر اپنے قوم کے جانبازوں کے راہ پر چلا جائے۔ تو اس میں قوم کی نقصان اتنا ہی کم اور فائدہ زیادہ ہو گا۔ وگرنہ آگے ایک ایسا مقام آئے گا جہاں سے واپسی کے راستے بند ہو سکتے ہیں۔خالصتا بلوچ قومی ریاست کی تشکیل اور بیرونی قبضوں سے خلاصی کیلئے نیشنل ازم۔کی بنیاد پر قائم تحریک کو مزہبی رجعت پسند کے سہارے پر مدد کی امید رکھنا کیا یہ خود نیشنل ازم کے متضاد سوچ نہیں ہوگا ؟اور بلوچ گلزمیں سے اس قابض سے خیر کی امید رکھنا کیا پر تضاد عمل نہیں جو خود اس وطن پر برائے راست قابض ہے۔ سونے پہ سہاگہ اس طرح سے بھی کہ بلوچ کے اس دشمن سے وطن کی نجات کی امید رکھنا جن کی اپنی داخلی و خارجی ریاستی سیاست یکسر ناکام اور انارکی کا دور دورہ ہو۔ جہاں ایران کے اندر حالیہ عوامی احتجاج اس کا ایک چھوٹا سا مظہر تھا۔ اور سفارتی سطح پر تنہائی و عالمی میڈیا میں تنقید کا شکار ہو۔ دنیا کی سب سے طاقتور قوموں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ان کی تعلقات خراب ہو۔ اب ایسے مزہبی رجعت پسند ریاست کی معمولی مراعات کے بدلے اہلکار بننا کسی صورت میں بھی اپنے قومی مفاد کی دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ قومی جہد کے نام پر ایسے نابالغ سیاست وجہد سے کسی کی علیحدہ پہچان تو قائم رہ سکتی ہے لیکن آگے مستقبل میں قومی نجات کی منزل کو حاصل کرنا ممکن نہیں ! کیونکہ اگر صرف لڑنے مرنے سے آزادی یا کسی قوم کی حالت بہتر ہوتی تو برما میں روہنگین کمیونٹی کچھ حاصل کیا ہوتا ۔ یا درست سمت و سیاست کے بغیر صرف لڑنے مرنے سے اپنی ریاست کو آزاد مل جاتی تو افغان طالبان کی جس طاقت ورفتار سے جنگ جاری ہے بلوچ کی مجموعی مزاحمت کو اس سے موازنہ مشکل ہے ۔ اس بات کی کوئی امکان نظر نہیں آرہا کہ انھیں کوئی بڑی کامیابی مل جائے گی ۔ ان کے لیئے ریاست و حکومت پر دسترس حاصل کرنا تو کجا انھوں نے اپنے ناکام داخلی و خارجی سیاست سے حاصل شدہ حکومتی اقتدار و ریاست کو قائم نہ رکھ سکے ! ان کیلئے مزید کامیابی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔