کوئٹہ (ہمگام نیوز) ممتاز بلوچ دانشور حفیظ حسن آبادی نے سرکاری وفد اور بلوچ گمشدگاں کے لواحقین کے درمیان مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیگناہ گمشدہ بلوچوں کی بازیابی اور جعلی مقابلوں میں مارنے کے خلاف بلوچ ماہیں، بہنیں کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے پچاس دن تک بیٹھی رہیں، موسم کی شدتوں، بیماریوں و ریاستی درجنوں رکاوٹوں کے باوجود یہ چلتن و بولان کی مانند ڈٹے رہے .
انہوں نے کہا اس دؤران کئی سرکاری و نیم سرکاری وفود آئے کہ آپ اپنا دھرنا ختم کر کے اُٹھ جائیں مگر انھوں نے دھرنا ختم نہیں کیا کیونکہ وہ بجا طور پر ریاست کی طرف سے ٹھوس اقدامات دیکھے بغیر ایسا نہیں کرنا نہیں چاہتے تھے. سوشل میڈیا کی بدولت انکی یہ کاوش توجہ کا مرکز بنی رہی.
اب جب دو دن بعد اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بلوچستان آرہا ہے
انہوں نے کہا ریاست نے مرکز سے ایک وفد بھیج کر انھیں دھرنا ختم کرنے راضی کیا. جہاں تک ریاستی وعدوں کا سابقہ ریکارڈ ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ اس بار بھی یہ لوگ جھوٹ ہی بول کر بلوچ گمشدگاں کے کیس کو زیادہ بہتر انداز میں پیش ہونے کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کامیاب ہوئے.
انہوں نے کہا اگر یہ مجبور و مظلوم مزید فقط دو دن وہاں گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھے رہتے کسی نہ کسی طریقے سے یو این سیکرٹری جنرل کے نوٹس میں انکی مجبوریاں اور انکے معصومانہ مطالبات زیر بحث آتے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے، ہمارے پیاروں نے اگر کوئی غلط کام کیا ہے انھیں ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے، انھیں تمام بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے دفاع کا حق دیا جائے اگر وہ مجرم ثابت ہوئے انھیں سزا دی جائے، ہمارے پیاروں کا جعلی مقابلوں میں مارنے سلسلہ بند کیا جائے اور جو لوگ سرکاری تحویل میں جعلی انکاؤنٹر میں مارے گئے ہیں انکی تحقیقات ہو.