سه شنبه, نوومبر 26, 2024
Homeخبریںبلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تاج بی...

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تاج بی بی بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تربت میں ایف سی کے ظالمانہ ہاتھوں قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان نے شرکت کی اور تاج بی بی بلوچ کے قتل کے خلاف آواز اٹھایا۔ مقررین نے تاج بی بی کے قتل کے خلاف نعرے بازی کی اور ان کے ہاتھوں میں بلوچستان میں خواتین کو ٹارگٹ کرنے کے بارے میں آگاہی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں مختلف قسم کے نعرے درج تھے۔ مقررین نے احتجاجی مظاہرے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں دو دہائیوں سے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے مگر حالیہ دنوں بلوچ روایات کو پامال کرتے ہوئے خواتین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے بلوچ تاریخ اس بات کی مثال دیتاہے کہ جب کسی بھی بلوچ خواتین نے اپنی چادر پھیلایا ہے تو بڑی بڑی جنگیں بھی ختم کر دیے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں پاکستانی فورسز نے اب بلوچ روایات کو پامال کرنا اپنے سرکاری فرائض میں شامل کر دیا ہے۔ بلوچستان میں آئے دن بلوچ خواتین کی بے حرمتی اور انہیں بے آبرو کرنے کا سلسلہ جاری ہے ان جیسے جرائم کا بلوچ قوم کے اندر پہلے تصور نہیں کیا جاتا تھا مگر اب روزانہ کی بنیاد پر ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے مگر پاکستانی ریاست اور اس کے حکمرانوں نے اپنی مجرمانہ آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ان مظالم پر خاموشی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں ان مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے اگر اس تسلسل کو روکا نہیں گیا تو یہ آنے والے دنوں میں انسانی بحران کی شکل اختیار کریگا۔ مقررین نے کہاکہ تاج بی بی بلوچ نے ایسا کیا گناہ کیا تھا جس پر انہیں اس طرح گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کر دیا گیا؟ تاج بی بی بلوچ ایک گھریلو خاتون تھیں گھر سے نکل کر جنگل کی طرف اپنے بچوں کی پیٹ پالنے کیلئے لکڑیاں جمع کرنے گئی تھیں مگر انہیں ایف سی نے اپنی بربریت کا نشانہ بناکر شہید کر دیا گیا اور ان سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔پاکستانی فورسز نے بلوچستان میں جنونیت پسند اہلکار بھیجے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان میں اپنی حیوانیت کی مثال قائم کررہے ہیں۔مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے طول و عرض میں کئی عرصے سے خواتین کو ریاست پاکستان اپنے ظلم و جبر اور بربریت کا نشانہ بناتی رہی ہے حد یہ ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی اہلکار بلوچ خواتین کے ساتھ زیادتی کے سنگین جرائم میں بھی ملوث رہے ہیں جو بلوچ کلچر اور مزہبی تعلیمات پر واضح حملے ہیں مگر اس کا سلسلہ جوں کے توں جاری و ساری ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ تاج بی بی کا قتل یہ واضح کر دیتا ہے کہ بلوچستان میں فوجی اہلکاروں کو مکمل طور پر آزادانہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جسے چاہے نشانہ بناسکتے ہے کیونکہ انہیں پوچھنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی جرات اور طاقت کسی میں بھی نہیں ہے۔ مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے مگر بدبختی سے بلوچستان میں ان سنگین جرائم پرپاکستان بھر میں خاموشی ہے جو لمحہ فکریہ ہے جب بھی بلوچستان کے سائل و وسائل کی بات ہوتی ہے بلوچستان میں قدرتی معدنیات کی بات ہوتی ہے تو پاکستان کے حکمران سب سے آگے ہوتے ہیں یہ بتانے میں کہ بلوچستان میں معدنیات بھرے پڑے ہیں مگر جب یہاں کے انسانوں کی جان مال و عزت بات ہوتی ہے تو سب غائب ہو جاتے ہیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے لوگ اور حکمران بلوچستان کے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان کیلئے اہم ہے تو بس بلوچستان کے معدنیات اور وسائل ہیں کیونکہ اس سے یہ اپنی آسائش زندگی گزار سکتے ہیں۔ بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے پورا مکران آج ریاستی جبر کا شکار ہے۔ کبھی ملک ناز کو رات کے اندھیرے میں قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی کلثوم کبھی حیات بلوچ کو دن دہاڑے ماں کے سامنے آٹھ گولیاں مارا جاتا ہے تو کبھی نوعمر قدیر بلوچ کو سائیکل پر باند کر گھسیٹا جاتا ہے مگر ان تمام مظالم کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے ریاستی فورسز کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ پاکستان میں قانون اور انصاف برائے نام کے ہو چکے ہیں مگر حقیقت میں قانون اور انصاف انہی کے ہاتھوں میں ہے جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ مقررین نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں بلوچوں کو قتل کیا جاتا ہے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ بس بلوچ کی کیوں باتے کرتے ہو یہاں پر دیگر اقوام بھی مظالم کے شکار ہیں ان کے بارے میں بھی بات کرو مگر ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمیں بلوچ ہونے کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے ہمیں ریاست ی جانب سے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر ہمیں بطور انسان سمجھ کر قتل کیا جاتا تب ہم بلوچ کیلئے نہیں بلکہ انسانیت کیلئے آواز اٹھاتے مگر ہماری قومی شناخت کی وجہ سے ہمیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بلوچوں کو ہر طرح کے مظام کا نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ہمارے لوگوں کے کاروبار کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ وہ دو وقت کی روٹی کیلئے بھی دربدر ہو جائیں گوادر میں بھی ماہیگیر سراپا احتجاج ہیں طلبہ بھی سراپا احتجاج ہیں بلوچستان میں ایک بھی ایسا طبقہ نہیں جو ان مظالم سے محفوظ ہو ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کی قومی شناخت کی وجہ سے ریاستی مظالم کا سامنا ہے۔ احتجاج میں مختلف سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز