دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeخبریںبکھرتا ایران: بلوچ کے لئے لوہا گرم؟ تحریر ـ صوبدار...

بکھرتا ایران: بلوچ کے لئے لوہا گرم؟ تحریر ـ صوبدار بلوچ ھمگام آرٹیکل

ہم معاشی، سیاسی اعتبار سے ایران و پاکستان سے کمزور ہیں، ہمارے پاس لاکھوں کا فوج بھی نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس بلوچستان ہے، جس کا، قانونی، خونی اعتبار سے ہم اذل سے وارث ہیں،

ھم اپنی مادر وطن پر حق ملکیت چاہتے ہیںِ، ہم ایران و پاکستان سے سیاسی، سفارتی جنگ لڑ رہے ہیں، ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ بہنوں، بھائیوں پر ریاستی مظالم پر لب سی لینا بلوچیت کے منافی عمل ہے لہذا فری بلوچستان موومنٹ سے جوبھی پن پڑتا ہے کررہا ہے اور ہماری قیادت ہر بلوچ کو اس کاروان آزادی میں شامل ہونے کی پرزور اپیل کرتا رہا ہے تاکہ ہم ملکر تہران اور اسلام آباد کی بربریت، وحشت، اور قبضہ گیریت سے گلو خلاصی کرکے ایک آزاد، پرامن ، ترقی یافتہ اور جموری بلوچستان میں زندگی گزارنے کے قابل ہوں۔

سب سے پہلے اپنے جغرافیائی حد و حدود پہ متفق ہونا ہے، اپنی مشترکہ دشمن کی پہچان کرنا ہے ،

جب آپ کو اپنی جغرافیہ ، اور اپنی مشترکہ دشمن طے کرنے میں کامیابی ملے گی تب آگے منزل تک پہنچنے میں مشکل پیش ہی نہیں آئے گی،

یہاں مسائل یہ ہے کہ ایران کی آزادی کچھ لوگوں کی آئین، منشور میںدکھاوے کے لئے توموجود ہے لیکن عملا ایران سے آزادی کی ڈیمانڈر تو درکنا ، ایرانی قابض فوج کی جانب سے بلوچوں پر آئے روز مظالم پر ایک مذمتی بیان، ایک جلسہ، ایک مظاہرہ تک نہیں کیا جارہا ۔

ایک دہائی پہلے اگر پاکستانی زیر تلسط بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کے بیانات اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک واضح پالیسی اور واضح وژن نظر آتا ہے، ایک یکسوئی اور ایک قومی بیانیہ دیکھنے کو ملتا ہے اسی قومی یکجتہی اور قومی وژن کو دیکھتے ہوئے ، محسوس کرتے ہوئے عالمی برادری بلوچ کی آواز سننے کے لئے تجسس رکھتی تھی، دنیا کا موجودہ سپر پاور ملک امریکہ کے کانگریس میں بلوچستان کے لئے بحث و مباحثہ کا انعقاد ہوا اور دنیا کے بین الاقوامی ادارے اور پالیسیاں مرتب کرنے والے بلوچستان پر بات کرنے لگے ، دنیا کی توجہ اپنی جانب راغب کرنے کے لئے بلوچ مشترکہ قیادت موجود تھی، کسی بھی مزاحمتی تنظیم میں اقتدار کے لئے کوئی رسہ کشی نہیں تھی، کوئی مڈل کلاس کوئی اپر کلاس کا کیڑا وجود نہیں رکھتا تھا لیکن جب سے دشمن نے پیسے کی ریل پیل سے مزاحمتی تنظیموں کو طفلانہ سوچ رکھنے والے افراد کو متاثر کیا یہاں سے بلوچ تحریک ڈیریل ہونا شروع ہوگیا، دھڑا بندیاں اور انتشار کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس طرح بلوچ ایران و پاکستان بابت یکسوئی سے جدوجہد کررہے تھے، یہاں سے وہ سلسلہ ٹوٹ گیا جس کا براہ راست فائدہ ایران کے متقدر اداروں کو پہنچا۔

 

آج اگر شہید غلام محمد، شہید صبا دشتیاری زندہ ہوتے تو وہ ایران میں ریاستی مظالم پر کوئٹہ کے یخ بستہ سڑکوں پر نکل کر ایرانی زیر قبضہ بلوچستان کے غیور بلوچ بہنوں اور ماوں کی امنگوں کا ترجمانی کرتے ضرور دکھائی دیتے لیکن بلوچ قوم مایوس نہ ہو، شہید غلام محمد، شہید صبا دشتیاری سمیت ہزاروں بلوچوں کی قربانیوں، اور ان کی انمٹ کاوشوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اب بھی ہزاروں بلوچ سربہ کفن موجود ہیں، بلوچستان بانج نہیں ہوا ہے، ہر باشعور بلوچ کو اب اس بات کا ادراک ہے کہ ایران و پاکستان ان کا کبھی بھی دوست و محافظ نہیں ہوسکتے اور ان دونوں قابضین سے بلوچستان کی دھرتی کو آزاد کرنے کےلئے بلوچ جہاں کہیں بھی ہوں وہ ایک دوسرے کے دکھ و درد میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ اس غلامی سے چٹکارے کے لئے وہ ملکر جدوجہد سے دریخ نہیں کریں گے۔

ایک خاص گروہ یہ دلیل کرتا ہے کہ اگر کسی کو ایران سے لڑنا ہے تو لڑے، ہم نے کب منع کیا،

ہماری دشمن ہمیں مارنے میں تمیز نہیں کرتا تو ہم خود کو بچانے کےلئے ایک دوسرے بلوچ سے تمیز کیوں کریں؟

 

دنیا آج بھی بلوچستان کے مسئلے کو اٹھانے کےلئے آمادہ ہوسکتی ہے اگر بلوچ پانی پاوں پہ لگی بیڑیوں کو اکھاڑنے کے لئے پہلے خود راضی ہے، جب بلوچ قوم ایران و پاکستان کی اجتماعی غلامی سے خود کو آزاد کرنے کا اعلان کریں گے آپ دکھیں گے پوری دنیا ہماری مدد اور ہماری آزادی کو تسلیم کرنے کے لئے دیر نہیں کریگی بشرطیکہ کہ سب سے پہلے ہم خود ایران و پاکستان سے اپنی آزادی کا مشترکہ اعلان کریں۔

کیا آپ ایران و پاکستان سے بلوچستان کو آزاد کرانے کے لئے تیار ہیں؟ دنیا کی مدد و کمک لینے سے پہے ہمیں سب سے پہلے خود کو مطمئین کرنا ہوگا کہ آیا ہم دنیا سے کیا چاہتے ہیں، عالمی برادری کسی ایک تنظیم ایک سیاسی پارٹی کو آزادی لیکر نہیں دیتی، دنیا کسی بھی قوم کو اس وقت تسلیم کرتی ہے جب وہ اپنا مشترکہ قومی بیانیہ سامنے لاتی ہے اس وقت بلوچ تحریک بلوچ عوام اور خاص کر مخلص و جفا کش جہد کاروں سے یہ تقاضا کررہا ہے کہ وہ اپنا مستقبل کا لائحہ عمل واضح کرے، تب دنیا بھی ہماری آواز کو نظر انداز نہیں کریگی۔

جس طرح بلوچ پاکستانی قبضہ گیر فورسز کے ہاتھوں اغوا ، اور شہادتوں کے خلاف سراپہ احتجاج ہیں، یہ قابل قدر، قابل تعریف ہے لیکن سوال یہ ابھرتا ہے کہ یہی جلسے، جلوس اور دھرنوں میں کیوں ایران کے ہاتھوں بلوچ ماوں بہنوں کی گرفتاری، شہادت کے خلاف ایک لفظ بولا نہیں جارہا؟ کیا ایسی بے حسی ہماری قومی تقسیم، اور دشمن کے لئے ہمیں ایک ایک کرکے کمزور کرنے اور اپنی قبضے میں رکھنے کا موجب نہیں بن رہا؟ ہم چین کی گوادر میں استحصالی منصوں کے خلاف بولتے اور مزاحمت کرتے ہیں لیکن چاہبہار پر چینی سرمایہ کاری پر ہماری قلم کے سیاہی ختم ہوجاتے ہیں۔

اگر ایران کے زیر قبضہ بلوچ کہے کہ پاکستانی زیر قبضہ بلوچوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں اور یہی الفاظ یہاں سے بھی دہرائے جائیں تو کیا یہ ہماری مشترکہ دشمن کی جیت تصور نہیں کیا جائےگا؟

دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی ایک قوم پر بیرونی حملہ آوروں نے یلغار کی اس ملک کے غیور اقوام نے اپنی قومی یکسوئی، قومی جذبے سے سرشار ہوکر اس بیرونی حملے کا مقابلہ کیا لیکن بدقسمتی سے بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں ہم بیرونی حملہ آور دشمن کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کی بجائے اپنے دشمنوں میں تفریق کرتے ہیں، اپنی غلامی سے چٹکارے کے لئے قومی طاقت کو سمیٹنے اور متحد کرنے کی بجائے ایک دشمن کو فری ہینڈ دیکر اپنے قوم پر مظالم جاری رکھنے کا گرین سگنل دے دیتے ہیں۔ یہی قومی بے اتفاقی ہماری قومی اور اجتماعی غلامی کو دوام بخشنے کا سبب بنتا چلا جارہا ہے جس کا فی الفور سد باب کرنا ناگزیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز