افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے تمام شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بارے میں پرامید تو ہیں لیکن انھیں فی الحال پاکستانی پالیسی میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔
صدارت چھوڑنے کے بعد بی بی سی کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ جب پاکستان شدت پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ترک کر دے گا حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت خطے میں امن چاہتی ہے لیکن ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت نہیں۔
پشاور میں سکول پر طالبان کے حملے کے بعد شدت پسندی سے متعلق پاکستانی پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس کی امید کرتا ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ تبدیلی کئی برس پہلے جی ایچ کیو پر حملے کے بعد آ جائے گی۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ مسجدوں اور عام شہریوں پر ہونے والے بےتحاشا حملوں سے یہ تبدیلی آ جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔‘
حامد کرزئی نے کہا کہ ’اب میں امید کرتا ہوں کہ سکول پر ہونے والا حملہ شاید یہ تبدیلی لے آئے۔ بنیادی طور پر پاکستان کو شدت پسندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بند کرنا ہو گا۔ جب یہ رک جائے گی تو سب چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی۔‘
اس سوال پر کہ ان کا دورِ اقتدار پاک افغان تعلقات کے حوالے سے بدترین دور کہا جاتا ہے تو ایسا کیوں ہے، انھوں نے کہا کہ ’وہ ایسے تعلقات چاہتے تھے جن میں افغانستان خوشحال نہ ہو۔ جہاں افغانستان اپنی آزادی اور خارجہ پالیسی سے دستبردار ہو جائے جبکہ پاکستان یا پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان کو ایک کمزور تر اور تابع ملک کے طور پر دیکھتی تھی جو ہم نہیں ہونے دے سکتے تھے اور ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘
کرزئی نے بات چیت کے دوران پاکستان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اسلام آباد کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ انتہا پسندی کو ایک نسل یا قوم کو کمزور کرنے کے لیے بطور آلہ استعمال کرنا ترک کر دے۔
’میں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔ ہم پاکستان کے ساتھ آج بھی برابری کی بنیاد پر خودمختار ملک کی حیثیت سے مہذب تعلقات کے خواہاں ہیں۔ افغانستان میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک دونوں ممالک اس کے حق میں نہ ہوں۔‘
’ان دونوں ممالک نے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں مختلف مفادات کے لیے اس خطے میں جنگ شروع کی۔ یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک یہ دونوں اس کا خاتمہ نہیں چاہیں گے۔ جب تک یہ افغانستان میں امن نہیں چاہیں گے۔‘
سویت یونین کے خلاف مزاحمت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ روسی انخلا کے بعد امریکہ نے افغانستان کو پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
’جب سوویت یونین یہاں سے گیا تو امریکہ نے افغانستان کو چھوڑ دیا۔ خاص طور پر پاکستان کی سازشوں کے لیے اسے چھوڑ دیا اور پاکستان نے اُس وقت ایک پڑوسی کے طور پر مستحکم، دوستانہ اور خودمختار افغانستان کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان نے یہی سوچا کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے تیار ہے اور اس نے اس کی کوشش کی۔‘
انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ اور پاکستان ہی انھیں اقتدار میں لانے والوں میں شامل تھے، لیکن یہ بھی کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ غلط کام کرتے جائیں۔‘
’دہشت گردی کے خلاف جنگ غلط لڑی گئی۔ یہ افغانستان میں نہیں لڑی جانی چاہیے تھی۔ میں امریکہ سے ملاقاتوں میں یہ سب کچھ کہتا رہا لیکن 2007 میں میرے سیاسی نظریات بالغ ہوئے یا آپ کہہ سکتے ہیں میرے خدشات مستحکم ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے وقت انھوں نے اسلام آباد کی جانب سے حمایت کی درخواست کے جواب میں ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں واضح کیا تھا کہ کارروائی انتہا پسندوں، ان کی پناہ گاہوں اور اڈوں کے خلاف ہونی چاہیے، وزیرستان کے عوام کے خلاف نہیں۔
’میران شاہ کے بازار پر بمباری کرنا دہشت گردی کے خلاف لڑائی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرستان کے لوگوں کے خلاف آپریشن شروع کرنا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنا نہیں ہے۔ ہم عام لوگوں کے بجائے دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف آپریشن چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ایسی کوئی تبدیلی آتی ہے تو پاکستان کو افغانستان کی شکل میں ایک تیار ساتھی ملے گا۔‘
حکومت پاکستان کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کارروائی سے قبل سرحد بند کرنے کی درخواست پر کابل کی جانب سے مناسب اقدامات نہ کرنے سے متعلق حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے۔
’یہ سچ نہیں ہے۔ عسکریت پسندوں کو ہم نے ضرور روکا۔ عام لوگوں کو یا پناہ گزینوں کو ہم نے نہیں روکا تو اس پر ہمارے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ وزیرستان کے لوگوں کا افغانستان بھی گھر ہے۔ ہم انھیں کبھی نہیں روکیں گے۔‘
افغان طالبان رہنما ملا محمد عمر کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں ان کے ماضی کے دعووں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اگر اب بھی پاکستان میں ہیں جو شاید وہ ہیں تو وہ افغان ہیں اور انھیں اپنے ملک واپس لوٹ کر یہاں قیام امن کے کوششوں کا حصہ بننا چاہیے۔‘
پاکستانی رہنماؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق افغان صدر نے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں قیام امن کے داعی ہیں لیکن طاقت نہ ہونے کی وجہ سے آج تک کچھ نہیں کر سکے: ’نواز شریف ملا برادر کو رہا کرنا چاہتے تھے لیکن نہیں کر سکے۔‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس دوران افغانستان اور پاکستان کو سٹرٹیجک ڈیپتھ کی غلط پالیسی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستانی طالبان کے رہنما ملا فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی اور اسے پناہ دینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حامد کرزئی نے کہا کہ وہ ان کی موجودگی کی تردید نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
’میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ شاید ملا فضل اللہ افغانستان کے اندر ہوں۔ میں نہیں جانتا اسی لیے اس کی نفی بھی نہیں کرتا۔ اگر افغانستان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ افغانستان میں چھپے ہوئے پاکستانی جنگجوؤں کو اس کے حوالے کرے تو اس سے افغانستان کو طاقت ملے گی مگر مجھے معلوم ہے کہ افغانستان کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔ اگر ملا فضل اللہ یا ان جیسے دیگر جنگجو افغانستان میں ہیں تو اس کی وجہ جنگ کی دھند ہے اور خطے میں عدم استحکام ہے جو پاکستان نے خود اپنی پالیسیوں کے ذریعے پیدا کیا ہے۔‘
بھارت کے ساتھ 2011 میں ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت سے متعلق خدشات نہیں ہونے چاہییں: ’بھارت افغانستان کا روایتی طور پر عظیم دوست ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا معاہدہ چاہتے تھے اور افغانستان اب بھی ایسا چاہتا ہے: ’لیکن پاکستان کو پہلے افغانستان کے خلاف شدت پسندی کا استعمال بند کرنا ہو گا۔ انتہاپسندی کا استعمال بند کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا ہو گا اور افغانستان کے ساتھ مہذبانہ تعلقات شروع کرنا ہو گا۔‘
شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے پاکستان اور افغانستان میں سر اٹھانے سے متعلق سوال پر حامد کرزئی نے کہا کہ ان کے لیے یہ معاملہ قابلِ تشویش نہیں ہے۔
’یہ تنظیم یہاں کوئی وجود نہیں رکھتی۔ یہ غیرملکی پروپیگنڈا ہے۔ دولتِ اسلامیہ کی نہ تو افغانستان میں کوئی جگہ ہے اور نہ حمایت ہے لیکن میں پاکستان کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ماضی کی غلطی کو اس خطے میں نہ دہرائے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو