سه شنبه, اپریل 22, 2025
Homeخبریںبی۔ایس۔ایف کی طرف سے شال قلات سوراب منگچر اور خضدار میں بروشر...

بی۔ایس۔ایف کی طرف سے شال قلات سوراب منگچر اور خضدار میں بروشر تقسیم

کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہاہے کہ 13 نومبر یوم شہدائے بلوچستان کے حوالہ سے شہدائے آزادی اور 13نومبر یوم شہداء کے حوالہ سے یادگاری دن کی اہمیت و افادیت کے تناظر میں شال سمیت قلات سوراب منگچر اور خضدار میں ایک بروشر تقسیم کیا گیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اولین دفعہ نہیں کہ بلوچ قوم اپنی شہدائے آزادی کی برسی کو مشترکہ طور پر مناتی ہے بلکہ دنیا میں جتنے بھی آزاد اور غلام اقوام ہے وہ اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک دن اور ایک موقع کا انتخاب کرچکے ہیں دنیا میں کئی اقوام ہے جو آج یا تو آذاد ہے یا وہ آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں وہ اپنے شہداء کے ساتھ تجدید عہد کے طور پر ان کے الگ الگ برسی منانے کے بجائے ان کے مشترکہ برسی مناتے ہیں جن میں کئی ممالک شامل ہے جن میں ویت نام بنگلہ دیش آزر بائیجان یو گنڈاشام لیبیا تیونس اور بھی کئی ممالک شامل ہیں اور اسی طرح بلوچ قوم بھی اپنی شہداء کی مشترکہ برسی منانے کے مناسبت سے 13 نومبر کے تاریخی دن کے چناؤ کا فیصلہ کیا اور 2013 سے باقائدگی سے ہر سال بلوچ قوم 13نومبر کو شہداء کے دن کے طور پر مناتے ہیں اس سے قبل اس طرح منظم طریقہ سے شہداء کی برسی منانے کے بجائے ہر بلوچ شہید کا ان کی شہادت کے دن کے مناسبت سے الگ الگ برسیاں منائی جاتی تھی ایک تو حالیہ دہائی میں اتنے بلوچ شہید کئے گئے کہ اگر ان کے برسیوں کا اہتمام کرنے کے لئے سال کے 65 3 دن بھی مختص کیا جاتا تو شہداء کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سال کے تمام دن ان کو یاد کرنے کے لئے کم پڑتے پھر دوسرا پہلو یہ تھاکہ بلوچ سماج میں ایک رجحان زور پکڑ رہی تھی کہ کچھ شہداء کی برسیوں کو شایان شان طریقہ سے منایا جاتا تھا اور کچھ شہداء کے برسیوں پر اتنی جوش و خروش اور شدت نہیں دکھائی جاتی تو اس طرح کے رجحانات شہداء میں فرق و تفریق کے باعث تھے جو ان بلوچ شہداء کے ساتھ ناانصافی ہوتی جن کی قربانیاں بلوچ جہد آذادی کے لئے تمام شہداء کی طرح یکسان اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے ایک مشترکہ اور عظیم مقصد کے لئے ایک ہی طرح کی قربانی دیکر اپنی جان سے گزر گئے تو پھر ان میں تفریق کیوں ؟یہ نہ صرف ایک سوال بلکہ یہ ایک المیہ اور کرب تھاتو اس قسم کے رجحانات کے خاتمہ کے لئے بلوچ قوم کے پاس ایک ہی لائحہ عمل تھا کہ شہداء کے برسی کے لئے ایک دن کا انتخاب کیا جائے تاکہ کوئی بھی پارٹی یا تنظیم کسی کو شہید اعظم اور کسی کو شہید اصغر نہ کہہ سکے جبکہ بلوچ جہد آذادی کے تمام شہداء عظیم ہے ان کا مرتبہ مقام یکسان اور بلند ہے تو پھر ان میں تفریق کیوں ان کی درجہ بندی اور ان کی الگ الگ برسیان کیوں ؟ایک اور پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا کہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لئے 177سال سے جدوجہد کررہی ہے طویل جدوجہد کے بعد 1948کوصرف سات ماہ کی آزادی نصیب ہوئی 1839سے لیکر1948تک بلوچ مزاحمت کا ایک طویل تسلسل رہاہے اور اس سارے تسلسل کو شہداء نے اپنی قربانیوں صلاحیتیوں اور خون سے برقرار رکھتے ہوئے جدوجہد کی تو ہم اپنے ان شہداء کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے انگریزی غلامی کے خلاف بلوچ وطن کی حفاظت شناخت اور آزادی کے لئے انتہائی کم وسائل کے ساتھ مذاحمت کی اور اپنی جغرافیہ ، بقااورشناخت کے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی جنہوں نے بلوچ تاریخ کی تشکیل کی اورآج تک ان کا بے لوث کردار اور سرفروشانہ فکر ہماری رہنمائی کرتی آرہی ہے اور حالیہ جہد آزادی اسی جدوجہد کا ایک طویل اوراٹوٹ سلسلہ ہے ۔بروشر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ قوم ہمیشہ سے نوآبادیاتی تسلط کے خلاف جدوجہد کی ہے غلامی اور تسلط کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ ہے13نومبرشہدائے وطن کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کے جدوجہد سے تجدید عہد کادن ہے جہان بلوچ قوم کے بہادراور بے لوث جانثاروں نے انگریز کی غلامی قبول کرنے کے بجائے شہادت قبول کرکے ہمارے لئے نشان راہ بن گئے جدوجہد آزادی کے اس طویل سفر میں بلوچ فرزندوں نے شہدائے 13نومبر کی تقلید کرتے ہوئے تحریک آزادی کے تسلسل کو اپنے لہوسے زندہ رکھا بلوچ قوم کو چاہیے کہ اس دن کے موقع پر حوصلہ اور یکسوئی کے ساتھ بلوچ وطن کے لئے کام آنے والے تمام شہداء کو بھر پور انداز میں خراج عقیدت پیش کریں۔اگر ہم برٹش امپائر کے خلاف بلوچ جدوجہد کے تاریخی تناظر کا جائز ہ لیں تو ہمارے اسلاف کا کردار ہمارے سر فخر سے اونچاکردے گا کہ ہمارے اسلاف نے بلوچ نیشنلزم اور بلوچ ازم پر کھبی سمجھوتہ نہیں کیا انہوں نے نوآبادیاتی نظام کی مخالفت کی انگریز قبضہ گیریت کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں ساروان جہا لاوان اور مکران کے بیشتر علاقوں سمیت مغربی بلوچستان میں شدید مزاحمت کی انگریز نے بلوچستان پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ بلوچ گلزمین کا بٹوارا کرکے اسے تین ممالک کے سرحدوں میں تقسیم کیااسی طرح بلوچ مشترکہ آبادی تین ممالک کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے انگریز قبضہ گیروں نے اپنی توسیعی مفادات کے پیش نظر بلوچستان کے مغربی پٹی کو گولڈ سمتھ لائن کے خونی لکیر کے زریعہ ایران کے حوالہ کرکے1929 میں بلوچ سرزمین کے بٹوارا کا سلسلہ شروع کیااسی طرح ڈیورنڈلائن کے زریعہ بلوچستان کے ایک کثیر علاقہ افغانستان میں شامل کیا ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمتھ لائن جو بلوچ سرزمین اور جغرافیہ کو بلجبر اور غیر فطری طور پر تقسیم کرکے متحدہ بلوچستان کے تقسیم کے سبب بنے ہوئے ہیںیہ مسلمہ بین الاقوامی سرحدیں نہیں بلکہ غیر فطری سرحدیں جن کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں جبکہ ڈیورنڈ لائن کے حوالہ سے موجودہ افغان گورنمنٹ کا موقف واضح اور حوصلہ افزاہے وہ افغان اور بلوچ سرزمین کی غیر فطری تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے بلوچ موقف کی تائید کی ہے جس کا بلوچ قوم نے خیر مقدم بھی کیا ہے جبکہ مغربی بلوچستان کو ایران اپنی قبضہ اور ملکیت سمجھتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد آزادی کو کاؤنٹر کرنے لئے مغربی بلوچستان کے بلوچوں کا بڑے پیمانہ پر بے رحمانہ طریقہ سے نسل کشی کررہے ہیں اور جنگی جرائم کے ہزاروں واقعات کا ریکارڈ موجود ہے جو بلوچ جدوجہد آزادی کو روکنے کے لئے روا رکھی جارہی ہے بلوچ قوم اور جدوجہد آذادی کے قیادت مشرقی اور مغربی بلوچستان سمیت بلوچستان کے منقسم اور بکھرے ہوئے کل وحدت کی آزادی کو بلوچستان کے حقیقی آزادی سمجھتے ہیں اور تین ممالک کی سرحدوں میں منقسم بلوچ وحدت کو ایک متحدہ بلوچ قومی ریاست کے طور پر کرہ ارض پر ابھرنے کے خواہشمند ہے۔انگریز
سامراج کے قبضہ سے قبل بلوچستان ایک آزاد وخود مختیارملک کے حیثیت میں وجود رکھتا تھاتاریخ انگریز امپائر کو کھبی بھی معاف نہیں کریگی کہ اگر انگریزوں نے بلوچستان کو غلامی در غلامی کا تحفہ دیا اور خطے میں آج جو صورتحال ہے یہ انگریزوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے تو اپنے ایک خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ برطانیہ دنیا بھر موجود کئی تاریخی مسائل کا زمہ دار ہے تو اگر تاریخ کا احاطہ کیا جائے تو یہ تاریخ کا باضابطہ حصہ ہے کہ بلوچ قومی مسئلہ بنیادی طور پر برطانیہ کی پیداوار ہے انگریز یہاں سے جاتے جاتے اگر قلات سٹیٹ کی آزادی کا اعلان کرتا ہے تو ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمتھ لائن کے زخم چھوڑ کر جاتاہے اور بعد میں بلوچستان کے جبری الحاق پر اپنی اخلاقی اورسیاسی زمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے پاکستانی ریاست کے صف میں کھڑا ہوجاتاہے لارڈماؤنٹ خطے میں جس طرح کی گیم بازی کی وہ اس سے تاریخ میں کھبی بھی بری الزمہ نہیں ہوسکتے آج بلوچ جو مختلف سامراجوں کے زیر غلامی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جو دشمنی کشیدگی اور خونریزی کا لا امتنائی سلسلہ ہے اس کی وجہ برطانیہ ہے۔بہر حال جب انگریزسامراج نے1839 کو بلوچستان پر حملہ کرکے قبضہ کیاتو اس وقت کے بلوچ ریاستی امور کے سربراہ اور بلوچ گورنمنٹ پر مشتمل تمام عوامی نمائندوں نے شہید محراب خان کے ساتھ مل کر برٹش امپائر کے قبضہ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی آزادی اور وطن کی فاع میں یکسوئی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور قومی دفاع میں شہید محراب خان اور ان کے ساتھیوں نے مثالی جانثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہوئے جہد آزادی کی بنیاد رکھی بعد میں یہ سلسلہ کھبی کم اور کھبی تیز ہوکر پورے بلوچستان میں پھیل گئے محراب خان اور ان کے ساتھیوں کے شہادت کے بعد آزادی کی جدوجہد کو اس تسلسل کو سردار خیربخش مری اول نواب خان محمد زرکزئی شہید علی دوست بارانزئی نورا مینگل شہید داد شاہ مبارکی حمل جیہنداور دیگر بلوچ راہنماؤں نے اپنی بے پناہ قربانیوں سے آگے بڑھایا مغربی اور مشرقی بلوچستان میں بھر پور طریقہ سے انگریز توسیع پسندوں کے خلاف مزاحمت کی گئی سیاسی سطح پر بھی بلوچستان کی آزادی کے لئے یوسف عزیز مگسی مصری خان مری اور کئی دیگر بلوچ رہنماء سرگرم رہے انگریزتوسیع پسندوں کے خلاف آزادی کے جدوجہد جہالاوان سراوان اور مری علاقوں میں تسلسل کے ساتھ جاری رہی انگریز فوجی بھرتی بورڈ کے خلاف مری بلوچوں کی مثالی مزاحمت تاریخ کا حصہ ہے جنہوں نے انگریزی فوج کے لئے بلوچ بھرتی کی سخت مخالفت کی اور ان کے اس بھیانک ارادے کو ناکام بنادیا۔ صدیوں اور دہائیوں سے لڑنے والے جدوجہد کے اس تسلسل میں میر یوسف عزیز مگسی کے عظیم قومی کردار کو کھبی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے مزاحمتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی قلمی اور سفارتی جدوجہد کو بھی تیز کیاانہوں نے بلوچ قوم کی سیاسی بیداری کے لئے دن رات محنت کیا بلکہ انہوں نے آزادی کی جدوجہد کو نصب العین بناکر بلوچ قومی موقف کو عالمی سطع پر اجاگر کرتے ہوئے روس جاکر بلوچستان کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا۔بلوچ قومی مزاحمت کی شدت اور ہندوستان میں انگریز ی قبضہ کے خلاف بڑے پیمانے پر جدوجہد اور جنگی عظیم دوئم کے تباہ کاریوں نے برطانیہ کو شدید کمزور کردیا تھا وہ شدیدجنگی بحران کاشکار ہوگئے تھے ان کے خلاف مختلف ممالک میں مختلف اقوام کی جدوجہد اور ان کے انخلاء کے حوالہ سے دباؤان کے پاؤں سے زمین کھینچتے ہوئے نظر آئے بلآخر وہ بلوچ وطن کی قبضہ سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے11اگست کو بلوچستان کی آزادی کا باقائدہ اعلان کیا11اگست کو بلوچستان کی آزادی کے اعلان کے بعد ایک ہی سال میں پاکستانی ریاست کا بلوچستان کا جبری الحاق ایک دفعہ پھر اس طویل غلامی کے سیاہ تریں باب کا آغاز ہے بلوچ قوم کو ایک سال کی آزادی تو ملی لیکن برطانیہ کے ساز و باز اور ریاست کے ساتھ برٹش مفادات اور وفاداریوں اور کالونیل دلچسپیوں کی عوض ایک بار بلوچ قوم پر غلامی مسلط کی گئی اوربلوچ سماج کو خاک و خون سے آلودہ کی گئی بلوچ قوم کی بدترین خونریزی کی گئی اور بلوچ نسل کشی کے سلسلہ کو جاری رکھا گیا بلوچ قوم کی تاریخ تہذیب ثقافت اور قومی اقدارو روایات کو مسخ کیا گیا 27 مارچ 1948کو بلوچ سرزمین کو طاقت کے زور پر ریاست کا حصہ بنا یاگیا حالانکہ بلوچ پارلیمانی اور سیاسی قیادت نے جبری الحاق کی کھلی اور شدید مخالفت کی دونوں بلوچ پارلیمانی اداروں نے پاکستانی ریاست کی جانب سے الحاق کی پیش کش کو مکمل طور پرمسترد کرتے ہوئے اسے بلوچ قوم کیلئے موت کا پروانہ اور ڈیتھ وارنٹ پر دستخظ کرنے سے تعبیر کی گئی جبکہ تمام بلوچ مکاتب فکر علماء دانشور سیاسی اور قبائلی رہنماء جو بلوچ نمائندہ حکومت کا حصہ تھے انہوں نے جبری الحاق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے غیر فطری قرار دے دیالیکن پاکستانی ریاست بلوچ قومی نمائندوں اور مجموعی طور پر بلوچ مرضی و منشاء کے برعکس نہ صرف عالمی قوانیں کی خلاف ورزی کی بلکہ ایک ہمسائیہ ملک کی حیثیت سے تمام تر جغرافیائی و سرحدی قوانیں کو پاؤں تلے روندھتے ہوئے بلوچ وطن کو زبردستی اپنی بندوبست میں شامل کیااور آج ہم جس کرب اور صورتحال سے دوچار ہے یہ 27 مارچ 1948 کے لگائے گئے زخم ہے آغا عبدالکریم خان اس وقت آزاد بلوچستان میں مکران کے گورنر تھے انہوں نے بلوچ قومی آذادی اور آزادبلوچ قومی ریاست کی بحالی کے لئے جدوجہد شروع کی بعد میں اسی تسلسل کو با بو نوروز خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی بے لوث قربانیوں سے زندہ رکھا 70 کی دہائی میں میر سفر خان زرکزئی شہید علی محمدمینگل اور مری بلوچوں نے جدوجہد آزادی کی سفر کو جاری رکھا اور تادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے۔ شہداء کے قومی دن کے مناسبت سے بلوچ وطن کی آزادی کی تاریخی مطالبہ اور اسی تسلسل کو لے کرشہید ہونے والے تما م معلوم و نامعلوم بلوچ شہداء ر تما م نامور اور گمنام شہداء کوبھر پور انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اقوام عالم اور مہذب دنیا کو ایک پیغام دیں کہ بلوچ وطن پاکستانی اور ایرانی ریاست کا فطری حصہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کی اپنی تاریخ وطن شناخت تہذیب زبان ادب اور الگ وحدت ہے جب کہ دونوں ریاستوں نے برابر بلوچ قومی آزادی کو سلب کرتے ہوئے متحدہ بلوچستان کو بلجبر اپنی ملکیت سمجھنے کی بے بنیاد دعوے کررہے ہیں۔اس دعوی کا کوئی بھی قانونی اور آئینی جواز نہیں ہم اس دن کی مناسبت سے شہداء کے ساتھ تجدید عہد کے موقع پر عالمی برادری کوآگاہ کریں
کہ غلامی میں رہتے ہوئے ہماری منفرد قومی شناخت بقاہ اور آزادی کو خطرہ لاحق ہے طویل غلامی نے بلوچ قوم کو ترقی تعلیم اور دنیا کے ساتھ برابر چلنے سیاست تجارت اور دیگر معاملات سے مصنوعی طور پر لاتعلق کردیاہے جبکہ بلوچ قوم کی ہزاروں سالہ تاریخ موجود ہے بلوچ کھبی بھی ترقی اور تعلیم کی مخالفت نہیں کی بلکہ بلوچ قوم اس ترقی کی مخالفت کرتاآرہاہے جو در اصل استحصال ہے اور لوٹ مار ہے جو غلامانہ ترقی ہے اس نام نہاد ترقی کی مخالفت صرف بلوچ قوم نے نہیں بلکہ الجزائر ویت نام کیوبا کوریااور دنیا کے تمام ترقی پسنداور آزادی دوست اقوام نے نے کی ہے جبکہ بلوچ قوم تاریخی طور پر ایک پر امن قوم رہاہے وہ کھبی بھی جنگ و جدل کے حق میں نہیں لیکن دنیا کے تمام اقوام کی طرح وہ اپنی دفاع سے کھبی بھی غافل نہیں رہے بلوچ قوم کا عالمی برادری اور ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں اور آج ایک آزاد وجمہوری و بلوچستان کا قیام یقیناًعالمی برادری کے حق میں جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز