شنبه, نوومبر 23, 2024
Homeخبریںبی ایس او آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن کا پہلا روز

بی ایس او آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن کا پہلا روز

 

‏‎بلوچ نیشنلزم ہی وہ نظریہ ہے جس پر بلوچ قومی تحریک کی بنیادیں استوار ہیں۔
چیئرمین سہراب بلوچ

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا بائیسواں قومی کونسل سیشن بنام معلم آجوئی شہید صبا دشتیاری و بیاد درسگاہءِ آجوئی بابا خیر بخش مری ایک تا تین نومبر منعقد کیا جا رہا ہے۔ قومی کونسل سیشن کے پہلے روز بلوچ قومی ترانہ ”ما چُکیں بلوچانی” اور شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے بعد دیوان کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
بائیسواں کونسل سیشن میں مرکزی چئیرمین کا خطاب، آئین سازی، سیکریٹری جنرل رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آیندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث ہونگے۔

کونسل سیشن کے پہلے روز مرکزی چئیرمین کا خطاب،آئین سازی،سیکرٹری رپورٹ اور تنقیدی نشست کے ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

چیئرمین سہراب بلوچ نے قومی کونسل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں اس اجلاس میں شامل تمام کونسلران کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اس طرح کے سخت حالات میں کونسل سیشن کا انعقاد کر کے بلوچ طلبا سیاست کو ایک جلا بخشی ہے۔ ریاستی پابندی اور جبر کے باوجود بی ایس او آزاد کی جانب سے کونسل سیشن کا انعقاد بلوچ قومی سیاست میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ خوف اور بربریت کے اس دور میں جہاں آئے روز نوجوانوں کو لاپتہ کرکے اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی پالیسی جاری ہو، وہی بی ایس او کے سنگت تمام مصائب کا انقلابی جذبوں سے سامنا کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کیلیے جدوجہد کو جاری رکھنا کارکنوں کی مخلصی اور فکری حوالے سے مضبوطی کی واحد دلیل ہے۔ بی ایس او کو اپنے قیام سے لیکر آج تک بلوچ قومی تحریک میں ایک سرخیل کی حیثیت رہی ہے اور آج بلوچ قومی تحریک کے اس عظیم اساس کی ڈوریں ہمارے ہاتھوں میں ہیں اور ہمیں اِن ڈوروں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا۔
چئیرمین نے کہا کہ بلوچ قومی جدوجہد کو ریاست کی جانب سے ہزاروں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں سیاسی عمل کے افزائش کو روکنے کیلیے سیاسی پارٹیوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا کر بلوچ عوام کو سیاسی حوالے سے بانجھ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچ قومی اداروں سے بلوچ عوام کو دور رکھنے کیلیے خوف و ہراس کے ماحول اور پاکستانی طرز سیاست کی ترویج جاری ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو گمراہ اور قومی تحریک سے غافل رکھنے کیلیے مختلف این جی اوز کا سہارا لیا جا رہا ہے جن کا واحد محرک نوجوانوں کو مختلف خیراتی سرگرمیوں کا حصہ بنا کر انھیں معمولی مسائل کیساتھ جوڑنے کی سازش ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنے کیلیے جہاں ایک جانب سیاسی تنظیموں پر پابندی لگائی جارہی ہے تو وہیں دوسری جانب ریاستی پیرول پر کام کرنے اور ریاستی بیانیے کی ترویج کیلیے سول سوسایٹیز کی ایک جال بچھائی جارہی ہے۔

چئیرمین نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک آج ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑی ہے جہاں فکری ابہام کسی بھی صورت قومی تحریک کیلیے نہایت ہی نقصاندہ ہے۔ کسی بھی سیاسی تحریک کا بنیادی ستون نظریہ یا وہ فکر ہوتا ہے جو تحریک کو ایک سمت مہیا کرتی ہے لہذا نظریاتی حوالے سے ابہام کا شکار ہونا ایک مبہم موقف کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ آج بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے ابہام کا شکار بنانے کیلیے ریاست کی جانب سے ایک پالیسی کے تحت بلوچ معاشرے میں ایسے نظریوں کی ترویج جاری ہے جن کا معروض،معروضی حالات اور زمینی حقائق سے کسی بھی قسم کا تعلق دکھائی نہیں دیتا ہے۔ بلوچ نیشنلزم ہی وہ نظریہ ہے جس پر بلوچ قومی تحریک کی بنیادیں استوار ہیں اور درآمد شدہ نظریات میں بلوچ قومی مسلئے کا حل ڈھونڈنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ درآمد شدہ نظریات کی پرچار کرنے والے ادارے عملی کے بجائے مہم جوہانہ سیاست کی ترویج کر رہے ہیں جو بلوچ سیاسی حلقوں میں سیاست کو ایک فیشن جبکہ سیاسی کارکنوں میں نرگسییت کی افزائش کا باعث بن رہی ہے۔
چئیرمین نے کہا کہ ریاست بلوچ قومی سیاست سے خوف زدہ ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں بلوچ سیاسی کارکنوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ ریاست بلوچ قومی مزاحمت کے سیاسی عنصر کو کمزور بنانے کیلیے آئے روز نت نئے حربے استعمال کر رہی ہے۔ ایک طلبہ تنظیم کے رکن کی حیثیت سے اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بلوچ قومی تحریک کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کا ادراک رکھے اور ریاستی پالیسیوں کے مخالف پالیسیاں ترتیب دے کر بلوچ قومی سیاست کو وسعت دیں۔ ریاست کی جانب سے قائم کردہ تمام انتظامی،سیاسی اور کاغذی لکیروں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے سیاسی موقف کو بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔
خطاب کے آخر میں انھوں نے کہا کہ بی ایس او آزاد بلوچ قومی تحریک کا ایک ستون ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ ریاست کے آنکھوں کو کٹھکتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے تنظیم میں انتشار پھیلایا جائے۔ تنظیموں میں انتشار تنظیمی سرگرمیوں میں جمود کا باعث بنتی ہے جبکہ یہیں جمود تنظیمی زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر بلوچ قومی تحریک کسی قسم کی انتشاری ماحول کا متحمل نہیں ہوسکتا لہذا آپسی اختلافات سے گریز کیا جائے جو ذاتی اور منافقت پر مبنی ہوں اور انھی ذاتی رنجشوں کے سبب تنظیم اور تحریک کو نقصان پہنچانا اختلاف رائے نہیں بلکہ قومی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے زمرے میں آتا ہے۔
تنقید برائے تعمیر اور تنقید برائے تنقید کے درمیان باریک لکیر کو تمام سیاسی کارکنوں کیلیے سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس لکیر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ذاتی اختلافات تنظیمی اختلافات کے دھارے میں بدل جاتی ہیں جو تنظیم اور تحریک میں انتشار کا باعث بنتی ہیں۔تنقید کیلیے ضروری ہے کہ تنظیم کے متلعقہ فورم کا انتخاب کیا جائے اور کسی بھی قسم کے تنظیمی مسلئے کو تنظیمی پلیٹ فارم پر زیر بحث لایا جائے۔ اس کی ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ ریاستی ظلم و استبداد کے بدولت سینکڑوں نوجوان اعصابی اور نفسیاتی مرض کا شکار ہو رہے ہیں یہیں وجہ ہے کہ بی ایس او کے کارکنوں کی اعصابی اور نفسیاتی حوالے سے مضبوطی معروض کی اہم ضرورت ہے۔ لہذا کارکن اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے کتب بینی پر توجہ دیں اور علمی, فکری اور شعوری حوالے سے مضبوط ہو کر قومی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کریں۔
کونسل سیشن کے دوسرے ایجنڈے آئین سازی پر کونسلران کے سامنے تنظیمی آئین پیش کی گئی اور تمام نکات کو زیر بحث لاکر چند نکات میں متفقہ طور پر ترمیم کیے گئے۔ دیوان کے تیسرے ایجنڈے میں مرکزی جنرل سیکرٹری کی جانب سے سیکرٹری رپورٹ پیش کی گئی جبکہ پہلے روز کے آخری ایجنڈہ تنقیدی نشست مکمل نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے دن تنقیدی نشست کا ایجنڈہ زیر بحث رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز