بلوچ قومی تحریک آزادی کے موجودہ غیر سنجیدہ روش اور غیر سیاسی اعمال سے روز بروز قومی تحریک کا گراپ گرتا چلا جارہا ہے۔ سنجیدہ قیادت کو انقلابی کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلوچ گوریلا کمانڈر عبدالستار بلوچ۔
ہمگام نیوز- بلوچ قومی آزادی اوربلوچ سیاست کے حالیہ منظرنامے کو دیکھ کر چند قوتوں کی جانب غیر انقلابی اقدامات اور رد انقلابی روش سے بلوچ عوام میں متاثر کن حد تک مایوسیت پھیل رہی ہے ان کی رد انقلابی اقدامات سے بلوچ معاشرہ ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہے جس سے عام لوگ ڈر،خوف اور سراسیمگی کے اس عالم میں آزادی کے نام سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔حالیہ چند سالوں سے بلوچستان بالخصوص مکران میں رونماءہونے والے واقعات جن میں عام غریب لوگ،نوجوان،طالب علم،بوڑھے خواتین انہی نام نہاد رد انقلابیوں کی غیر سنجیدہ روش سے متاثر ہیں۔بلوچ معاشرے کو معاشی،سیاسی و سماجی لحاظ سے مفلوج بنایا جارہا ہے۔ریاست کے ہتھکنڈوں کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کے چند ناعاقبت اندیش قوتوں نے بلوچ سیاسی میدان خواہ وہ سرفیس سیاست ہو یا عسکری محاظ میں افراتفری کا ماحول گرم رکھ کر خالص قومی نظریے و قومی بقاءکو داﺅ پر لگاکر سیاسی و انقلابی ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں۔قومی تحریک آزادی کے ان ناسور و نا عاقبت اندیشوں کی ان غیر سیاسی و رد انقلابی حرکتوں سے بلوچ سیاسی نوجوانوں مایوسیت کا شکار ہوکر زہنی طور پر دباﺅ کا شکار ہیں۔معاشرے میں بھتہ خوری،چوری ڈکیتی،رہزنی،غریب و عام افراد کا قتل عام،منشیات کے نام پر سماج کے متاثرین غریب و نادار لوگوں کو جسمانی طور پر مفلوج کرنا،بزرگوں بوڑھوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا حتیٰ کہ حالیہ دنوں بلوچ زالبولوں پر حملہ اور ان کا سفاکانہ قتل اس چیزکے واضح ثبوت ہیں۔بلوچ قومی اقدار کو ملیامیٹ کرنا اور عوام کو تحریک سے دور کرنا دنیائے عالم کے گوریلا اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بلوچ سیاسی ماحول کو اس گندگی سے پاک کرنے کے لئے سنجیدہ قیادت اور مخلص قوتوں کو ذمہ دارانہ اور مدبرانہ طریقے سے کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ قومی تحریک کو ان غیر سنجیدہ و نابالغ و ناعاقبت اندیش قوتوں کی چنگل سے نجات دلاکر ایک مثبت و منظم سیاسی سماج تشکیل دینی ہوگی۔تاریخ کے ان تلخ حقائق کو مدنظر رکھ کر بلوچ قومی سیاست کی مخلص کردار اور آزادی کے شاہراہ پر گامزن بی ایل اے اور بی این ایل ایف کی قیادت کو چاہیئے کہ قومی تحریک کے اس نازک مرحلے پر وہ سنہرے فیصلے اور اقدامات کریں جس سے بلوچستان بالخصوص مکران میں گرتی ہوئی عوامی حمایت پھر سے بحال ہوکیونکہ عام عوام بلوچ معاشرے میں سماجی برائیوں رد انقلابی اعمال کے مرتکب ان قوتوں سے یکسر مایوس ہیں اور ان کے ایسے اعمال اور ریاستی طرز سے عوامی حمایت روز بہ روزگٹھتا جارہا ہے۔وقت و حالات کی نزاکت اور بلوچ قومی تحریک کو ان حالیہ بحرانوں سے نکالنے کے لئے بی ایل اے اور بی این ایل ایف کی مشترکہ پالیسیاں مرتب کرنا ناگزیرہوچکا ہے کیونکہ قومی تحریک کی آڑ میں گروہی و شخصی مفادات کو تحفظ دینا اور اداروں کو اپنے ماتحت کرکے سیاسی ماحول کو تباہی کے دہانے لیجاکریقینا یہ قوتیں قومی بقاءکے لئے زہر قاتل کی مانند ہیں۔قومی تحریک کو ان بحرانوں سے نکالنے کے لئے تلخ و سنگین فیصلے کرکے آنے والے اوقات کو عوامی اعتماد کی بحالی سے ہی منزل مقصود کی جانب بڑھایا جاسکتا ہے۔