سه شنبه, نوومبر 26, 2024
Homeخبریںبی این ایم کی مرکزی کمیٹی کادوسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی...

بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کادوسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد

کوئٹہ (ہمگا م نیوز)بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کادوسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا ،اجلاس کا پہلا روزجس میں پہلا سیشن سیکریٹری جنرل شہیدداکٹرمنان بلوچ کی عظمت ،سیاسی کردار وخدمات کے لئے مختص تھا جس میں چیئرمین اورمرکزی کمیٹی کے ممبران نے شہیدڈاکٹر منان بلوچ کی عظمت وسیاسی ، انہیں پارٹی کو فعال بنانے اورقومی تحریک کے لیے زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ سینٹرل کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا30جنوری کو بلوچ قوم نے ایک عظیم لیڈ ر کھودیاہے ،بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنا عظیم رہبر آزادی کے سفر میں قربان کردیا ۔قومی آزادی کا ایک بہادرلیڈر،قومی سیاست کے فہم ادراک کا پیکر،انسانیت کے لئے ایک دھڑکتی دل، قومی تحریک کاعظیم جانباز رہبردشمن نے بلوچ قوم سے جدا کردیا۔جب فانی انسان فکر و نظریے میں ڈھل جاتے ہیں تو لافانی بن جاتے ہیں، شہیدڈاکٹر منان بلوچ قومی آزادی کے لئے نیشنلزم کے نظریے پر کاربند ایک قابل تقلیدمثال ہیں۔ آج جسمانی جدائی سے ایک ایسی مینارہ نور بن چکا ہے جو غلامی کے تیرگیوں میں نشانِ راہ،دشمن کی جبر و دہشت خیزیوں میں حوصلہ ،جمود و بیگانگی میں حرکت اور جانفشانی اور آزادی کے لئے برسر پیکار بلوچ قوم کے لئے فخر کی عظیم علامت بن چکے ہیں ۔بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ قوم کو اس کی کارناموں اور شہادت پر فخر ہے ،پارٹی جھنڈا سرنگوں ہوکر ان کی عظمت ،کردار اور خدمات کا اعتراف کرکے انہیں سرخ سلام پیش کرتا ہے ۔جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا ایک ایک لمحہ قومی آزادی کے لئے دان کردیاہے اوراپنی انمول زندگی قومی آزادی کے لئے راہوں میں عمل کے میدان میں نچھاور کردیا ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ہمیشہ ایک ایسی بہترین ٹیم ورک کے ساتھ کام کیا ہے جو قومی جدوجہد کے لئے وقف ،سخت ترین حالات میں ثابت قدم ،ایک دوسرے سے ہمقدم ،مستعد اور انقلابی معیار پر پورا اترتے ہیں ۔آج یہ اس ٹیم کی محنت کا ثمر ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا شمار قومی تحریک کے ذمہ دار اداروں میں ہوتا ہے ،آج نہ صرف بلوچستان کے کونے کونے میں پارٹی موبلائزیشن کا عمل کامیابی سے چل ر ہے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی بلوچ قوم کی نمائندگی کا حق پارٹی خارجہ کمیٹی ادا کررہا ہے ۔چیئرمین غلام محمد بلوچ سمیت سینئرقیادت کی شہادت ،پارٹی پر دشمن کی مکمل کریک ڈاؤن ،اکثر ساتھیوں کی زیر زمین چلاجانا،مجموعی طور پر مشکل اورپیچیدہ صورت حال میں جو سب سے زیادہ سخت جان ،انتھک محنتی اور عزم و حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوا وہ ڈاکٹر منان بلوچ تھے ،جسے آ ج ہم نے کھودیاہے ۔نہ صرف بلوچ قوم نے ایک عالم ،فہم و ادراک کے پیکر لیڈر کھودیا ہے بلکہ انسانیت کے مظلومین کے لئے ایک سخت جان اور ہمہ وقت باعمل علامت ڈاکٹر منان بلوچ اب جسمانی طور پر نہیں رہا ۔جس کی تلافی ایک مشکل امر ہے ،وہ ہستی جسے ادراک تھا کہ جدوجہد پارٹی کے بغیر کامیابی کے منزل سے ہمکنار نہیں ہوسکتااس لئے پوری زندگی پارٹی کے استحکام اور ورکروں کو متحرک کرنے کے لئے وقف کردیا،آج بلوچستان کا کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں شہیدڈاکٹر منان بلو چ پارٹی پروگرام ،قومی تحریک کے لئے موبلائزیشن نہ کیا ہو،جہاں پارٹی کو ضرورت ہوتا ،جدوجہد کو ضرورت ہوتا شہیدڈاکٹر منان بلوچ آن حاضر ہوتے اور ان کے پاؤں میں کبھی لرزش نہیں آئی بلکہ وہ علاقے جہاں بہت سوں کا خیال تھا کہ موبلائزشن کا عمل ،سرگرمیاں ناممکن ہیں لیکن شہیدڈاکٹر منان بلوچ نے ہر جگہ ایسی خوف اور فرارکے راستوں اور دشمن کو چیلنج کرکے ناممکن کو ممکن کر دکھا یا۔ان کی سیاسی زندگی ایسی مثالوں سے عبارت ہے ،میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ کمیٹڈ اور باحوصلہ انسان کے لئے دنیا میں کوئی شئے ناممکن نہیں ہے ۔شہیدڈاکٹر منان بلوچ نے اپنی عزم اور حوصلے سے میرے یقین کو مزید مستحکم کردیا ہے ۔آج وہ موجو د نہیں ہیں تو ہم تا ابداس کی کمی کو محسوس کرتے رہیں گے لیکن پارٹی ہمیشہ ایسی طاقت رکھتا ہے کہ وہ اپنی لیڈر ز،کیڈرز کا نعم البدل پیدا کرتا ہے ۔چیئرمین غلام محمد بلوچ کی شہادت کوئی معمولی نقصان نہیں تھا ،شہید سدوجان مری کی شہادت ہمارے لئے کم نقصان نہیں ایسے بے شمار سیاسی کارکن و لیڈر تھے جن کی خدمات بلوچ قوم کے مشعلِ راہ ہیں ۔شہیدڈاکٹر منان بلوچ انہی عظیم انسانوں میں سے ایک تھے ،ہم عزم و اقرار کرتے ہیں کہ ہم ان کی شہادت سے پیدا ہونے والی خلاؤں کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کی تشنہ تکمیل ارمانوں کی تکمیل کریں گے اوران کی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں اور بلوچ قومی آزادی کے لئے سروں کا سودا بلوچ نیشنل موومنٹ کا فلسفہ رہے گا۔چیئرمین خلیل بلوچ نے شہید ڈاکٹر منان بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم کم و بیش نو سال نو مہینے اکھٹے رہے پہلی ملاقات غالباََ26جون 2006کو اس پستہ قامت ،بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہوئے ،بذلہ سنج نابغہ ہستی روزگارہستی کودیکھا۔میری گمان میں نہ تھا کہ ان بیساکھیوں کے سہارے چلتے کمزور انسان کے ساتھ اتنی طویل اورمشکل مسافت طے کرسکتے ہیں ،اتنی کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں ۔اس ملاقات کے بعد دیوان ہوتے رہے ۔ہم نے ایک طویل سیاسی پیریڈ اکھٹے گزارا۔میں نے ڈاکٹر صاحب میں ہمیشہ بلوچ نیشنل موومنٹ کو دیکھا،جب ہم نے بلوچ نیشنل موومٹ جوائن کیا تو اس وقت غلام محمد صاحب جیل میں تھے۔اس وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا مگر اس کی زندگی پارٹی تھا۔وہ مختلف لوگوں سے ملاقات کرتا ،تگ ودو کرتا۔انہیں کبھی چین نہیں آیا ،وہ بہت صاف گو انسان تھے اپنی بات بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیتاتھا ۔ایسی جرات بہت کم انسانوں میں ہوتا ہے ۔ دس سالہ ہمراہی میں بلوچستان کے طول وعرض میں گوادر سے لے کر کراچی ،دالبندین سے لے کر اوستہ محمد تک یا سندھ کے علاقوں میں دورے کئے ۔میں نے ایک وقت خودکوبحیثیت سیکریٹری جنرل شہید غلام محمد کے پہلو میں دیکھا ،اور ایک وقت ڈاکٹر صاحب کو بحیثیت سیکریٹری جنرل اپنے پہلو میں دیکھا ۔آج ان کی نشست خالی ہے۔ بحیثیت پارٹی سیکریٹری جنرل اس نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیاجو پارٹی پالیسی کے خلاف ہو ۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آزادی کی جدوجہد عظیم ہوتا ہے اور اسے عظیم لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔ ایسے عظیم انسان جو مسلسل عمل ،مضبوط کمٹمنٹ ،مستقل مزاجی ،صاف گوئی اور انقلابی رویے کے ساتھ اپنی زندگی اپنی قوم کے مستقبل کے لئے قربان کردیتا ہے ،میں نے اپنی مختصر سیاسی کیریر میں ڈاکٹر منان بلوچ جیسے سیاسی ورکربہت کم دیکھا ہے، کہ جو ورکر،کیڈر اور لیڈر شپ کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔وہ اعلیٰ صلاحیتوں کا خزانہ اورمضبوط قوتِ ارادی کا سیمبل تھا شاید بلوچ تاریخ میں سب سے زیادہ انٹرنیشنل میڈیا ،انٹرنیشنل کمیونٹی ،اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے رابطے میں ڈاکٹرصاحب رہے ۔بحیثیت سیکریٹری جنرل پچاس سے زائد ڈرافٹ انہوں نے اقوام متحدہ اوراس کے ذیلی اداروں کو بلوچ بارے لکھے لیکن اس بات پر ضرور افسوس ہوتا ہے کہ ان عالمی اداروں نے بلوچ قومی رہبر اور لیڈرکے شہادت پر اپنی موقف پیش نہ کی۔بہت کم ایسے سیاسی ورکر پیدا ہوتے ہیں۔ آج ہم فخر سے کہتے ہیں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کو اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ کردار ڈاکٹرمنان بلوچ کاہے۔بحیثیت بنیادی ممبر،بحیثیت سینٹرل کمیٹی ممبر،بحیثیت آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبریابحیثیت سیکریٹری جنرل اس نے ہرپوزیشن پر اپنی فرض سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کی ،اورہمیشہ ادارہ کے تابع رہے ۔ایک بااختیار عہدے پرفائزہونے کے باوجود اپنے ہر معاملے پر پارٹی کو پیشگی معلومات فراہم کرتا،وہ اپنے آپ میں ایک ادارہ تھے ،وہ بلوچ نیشنل موومنٹ تھے ۔اس کی زندگی کا ہرعمل پارٹی کے لئے تھا اور اس کی نعم البدل کو اس کا کردار اور عظمت خود پیدا کریں گے۔ بہرحال میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے اپنا ایک عظیم لیڈر کھودیا ہے۔اتنی طویل سیاسی رفاقت میں، مجھے صرف ایک گلہ ہے ان سے کہ وہ بہادری کی وہ حدود بھی پار کرگئے کہ احتیاط و خوف کا فرق نہ باقی رہا۔پارٹی کے لئے ان کے خدمات کسی سے ڈھکی چھی نہیں ہیں اس جگہ پہ آج ہم بیٹھے ہیں یہاں بہت پہلے ڈاکٹر صاحب نے اپنے قدم رکھے تھے ،ہم ان کی خدمات کا اظہار کرنے شاید قاصر ہی رہیں گے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینٹرل کمیٹی کے ممبران نے ڈاکٹرمنان بلوچ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہاکہ شہید ڈاکٹرمنان بلوچ وہ سیاسی سمندر تھے جس کی گہرائی ناپی نہیں جاسکتی۔ شہید ڈاکٹرمنان بلوچ کی خدمات و کردار پر بات کرنا سورج کو انگلی دکھانے کی مترادف ہے ۔ہم آج پارٹی جو بساط رکھتے ہیں وہ شہید ڈاکٹرمنان بلوچ کی مرہونِ منت ہے۔ وہ ایسے لیڈر تھے جس کی دستِ شفقت ہمیشہ ہماری سروں پر تھا۔ جب ہمیں تکلیف ہوتا تو سب سے پہلے اسے ڈاکٹر صاحب محسوس کرتا ۔پارٹی پروگرام کے لئے ان کے پاس دن رات اور گرم و سرد کاکوئی فرق نہیں تھا ۔وہ عالم و بالغ سیاسی انسان تھا ،وہ بہادر تھاان کی خدمات بہت ہی زیادہ ہیں ،ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں’ ناممکن‘ کا لفظ نہیں تھا وہ ذہن ساز اور نظریہ سازتھے ۔جن کی افکار کی اثرات اور شخصیت کی خوشبو بلوچستان کی فضاؤں میں تاابد موجودرہیں گے۔ سینٹرل کمیٹی کے ممبران نے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہوئے کہاکہ شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے جابر دشمن اور مشکل و پیچیدہ حالات دونوں کو بیک وقت چیلنج کرکے پارٹی کی استحکام کے لئے جو محنت کیا اس کا رزلٹ ہمارے سامنے ہے۔آج بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان اور بیرونی ممالک میں جس مقام پر ہے ، اس میں ڈاکٹر صاحب کا کردارکلیدی ہے ۔شہید کے افکارخدمات کے اثرات محض بلوچ قوم و وطن تک محدود نہیں رہے گیں بلکہ انسانیت و مظلوم طبقات کے لئے ایک علامت بن چکے ہیں ۔ان کی سیاسی زندگی میں بی ایس او کا زمانہ ہو یا پارٹی سیاست ہو ،ہرمقام اورہر میدن میں ان کے شاگر وافر تعداد میں مل جاتے ہیں ۔بلوچ عوام سے ایسی الفت رکھتے تھے آج ہر علاقے میں بلوچ ان کی خدمات کا اعتراف کرکے انہیں ایک ہر دلعزیز لیڈر کی طرح یاد رکھتے ہیں۔ شہید کے لئے آزادی عشق اورعبادت تھا ،اس عشق کی صداقت کے لئے آج اپنی جان سے گزرگئے ۔جب انسان اپنے کام کو جذبہ اور جنون بنائے تو اس کے لئے کوئی کام ناممکن نہیں ہوگا ۔ ایسے عاشق کی سیاست میں راہیں کبھی بند نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہر مشکل اس کے لئے نئی سبیل اور کشادہ راہ بن جاتا ہے اس حوالے سے شہید ایک علامت ہیں ۔آج تاریخ کے جبر نے ہمیں ایسی صورت حال سے دوچار کردیا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ اس عظیم شخصیت کوکن الفاظ میں سلام پیش کریں ہمارے لئے وہ غلام محمد تھے کیوں کہ غلام محمد نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے شجر کو اپنی لہوسے مضبوط بنیادفراہم کیااور ڈاکٹرمنان بلوچ نے اپنی لہوسے اس شجر کوتن آور بنادیا۔وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایسے روح تھے جیسے غلام محمد تھے ۔سیاست اور سماجی علوم کا ایک استاد جس سے پارٹی ور کروں نے سیکھا ،سماج نے سیکھا ۔جو ذمہ داریا ں غلام محمد نے ادھورے چھوڑے تھا وہ چیئرمین خلیل بلوچ اور شہیدڈاکٹر منان بلوچ کے کندھوں پر آگئے آج شہیدڈاکٹر منان بلوچ بھی نہ رہے ۔ساتھیوں کا بوجھ مزید بڑھ گیاہے۔ ،شہید غلام محمد کے بعد پارٹی کو ایک بحرانی کیفیت سے نکالنے اور مستحکم ادارہ بنانے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے ورکروں کی مدد سے جو کامیابیاں حاصل کیں اس سے بدخواہوں اور دشمن کے بی این ایم کے تئیں ارادے خاک میں مل گئے ۔انتھک محنت ،مسلسل عوامی رابطہ اور کارکنوں کی تربیت ان کی زندگی کا فلسفہ تھا ۔ہم سب کوان کی فلسفہ کو اپنا مشعل راہ سمجھ کر اس پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ 2014کو جب ڈاکٹر صاحب گومازی میں تھے تو دشمن نے ایک فضائی اور زمین آپریشن کیا ۔ہم آپریشن کی زدسے بچ گئے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’دشمن لاکھ آپریشن کرے ،بمباری کرے ،ہم کام کرتے رہیں گے ۔جو سفر ہم نے شروع کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ آپریشن اور بمباری ہماری ہمراہ ہیں ،دشمن کے جنگی ہیلی کاپٹر،بمبار طیارے ،ملٹری اور ڈیتھ سکواڈز ہمارے قدم نہیں روک پائیں گے ۔‘‘ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں سنا کہ حالات خراب ہیں بلکہ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ ایسی غیرفطری اور تاریخ اور تہذیب سے محروم دشمن سے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے ایسے حالات ہماری جدوجہد کے فطری حصے ہیں ،ان سے الگ ہوکر کام نہیں کیا جاسکتا۔وہ ہمہ وقت پارٹی پروگرام کو آگے بڑھانے اور عوامی موبلائزیشن کے عمل میں مصروف تھے اور ان کی شہادت مستونگ میں اسی عمل کے دوران ہوئی ۔سینترل کمیٹی کے ممبران نے مزید ان کی شخصیت اور زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر صاحب نے جب شعو ر کی دہلیز پرقدم رکھا تو وہ سیاست میںآئے اور اسٹوڈنٹس سیاست کے دوران سے قومی آزادی سے وابستہ ہوئے ۔بی ایس او کے بعد بھی وہ جدوجہد سے منسلک رہے ۔وقت اور حالات اور ان کی سیاسی زندگی میں شاید نشیب و فراز آئے ہوں مگر اپنے مقصد کے بارے میں کبھی بھی ابہام اور کنفیوژن کاشکار نہیں ہوا۔ ان کا ذہن اس ضمن میں صاف تھا تاوقتِ شہادت وہ عملاََ جدوجہد میں شامل تھے۔ ہم سب انسان ہیں ہماری رائے مختلف ہوسکتا ہے ہمارے اندازے غلط ہوسکتے ہیں، اصل چیز مقصد ، نیک نیتی اور عمل ہے وہ اپنی بساط کے مطابق ہمیشہ کام کرتے رہے اس مقصد کے لئے اس نے اپنی پرآسائش نوکری چھوڑدیا۔ انہوں نے اپنے بچوں اورخانوادے کی آسودگی کوپارٹی پرترجیح نہیں دیا ۔انہوں نے کبھی معذوری کوبہانہ نہیں بنایا کبھی صحت کے مسائل کو اپنے کام کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا ۔جہاں جہاں پارٹی نے انہیں ذمہ داری دی انہوں نے خندہ پیشانی سے وہ ذمہ داری نبھایا ۔یقیناآج پارٹی جس پوزیشن پر ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کا محنت زیادہ نمایاں ہیں ۔وہ متحرک تھے ،کبھی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہے ،ہمیشہ پارٹی دوروں پر رہتے ۔جہاں جہاں پارٹی پروگرام کے لئے امکان پیدا ہوتا وہ ضرور وہاں جا حاضر ہوتے اور کام کرتے۔ اس وقت جب ملازم تھے تب بھی آزادی کے لئے کام کرتے ،عوام دوستی کے فلسفے پر گامزن تھے ان کی زندگی کا پہلا مقصد بلوچ قومی آزادی تھا اور دوسری یہ کہ یہ آزادی محض چندبارسوخ آدمیوں یا چند طبقات کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے کے لئے ہے ۔وہ عوام دوست انسان تھے انہیں نام و منصب میراث میں نہیں ملے تھے بلکہ یہ ان کی کمٹنٹ ،سیاسی بصیرت اورکرداراور محنت کی ثمرہے کہ آج بلوچ قوم ان کا نام احترام سے لیتا ہے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے ان کی ستائش کرتا ہے ۔یہ اس کی عمل کا ثمر ہیں۔یہی ان کا سرمایہ ہے ۔جب انہوں نے چیئرمین شہید غلام محمدکے مقابلے میں الیکشن لڑا تو بہت سوں نے اس بات کو ان کے خلاف استعمال کیااورانہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی لیکن وقت اور اس کی عمل نے ثابت کردیا کہ اس عمل کے پیچھے کوئی بدنتی نہیں تھا،وہ ایک جمہوری عمل تھا۔ایک سینئر ساتھی نے کہا کہ اس وقت پارٹی کو غلام محمدکے قیادت کی زیادہ ضرورت ہے وہ سربراہی کررہے ہیں لیکن پارٹی کو آپ کی بھی ضرورت ہے آپ کے مقابلے سے آپ میں سے ایک باہر ہوگاآپ کوکسی دوسری پوزیشن پر آنا چاہئے تھا انہوں نے کسی پس و پیش کے بغیر کہہ دیا کہ ’’ واقعی ایسا ہونا چاہئے ‘‘اس کے عمل نے واضح کردیا کہ اس عمل میں ان کاجمہوری روایات کی فروغ یا جمہوری حق کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں تھا۔ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھا کہ وہ اپنی رائے کے اظہار میں کبھی نہیں ہچکچاتے ،جو بھی ان کے محسوسات ہوتے ،اظہار میں بخل سے کام نہیں لیتے ۔کہتے کہ صحیح یا غلط کا فیصلہ توپارٹی کا استحقاق ہے ،جدوجہد میں خطرات ہمہ وقت یقینی ہے اگر خطرات ہمیں بے عمل بنادیں تو جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی بھی خطرات کو کام میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔عوام دوستی کا یہ عالم تھا،مشکل اور تکالیف کے دوران وہ کبھی بھی اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا۔ زلزلے کے دوران خطرات کے باوجود دن رات امدادی کیمپ میں کام کرتا رہا ،وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ انفرادی موت مسئلہ نہیں بلکہ اصل چیز قوم ہے اوراصل نقصان قومی یا اجتماعی موت ہے ۔ہمارامقصد یہی ہونا چاہئے کہ ہم بحیثیت قوم فنا کے گھاٹ میں نہ اتریں اور اس مقصد کے لئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ موت سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوا، اس لئے آج ہم ان کی عظمت ،ان کے کردار ،ان کی قربانیوں کی ستائش کررہے ہیں ۔ آزادی کی جدوجہد میں قوموں نے لاکھوں کی قربانی دی ہے ،ہماری بھی جدوجہد جتنا آگے بڑھے گا ، دشمن کو جتنا زیادہ تکلیف ہوگااوروہ اپنی گرفت کوجتناکمزور محسوس کرے گاتو وہ اتنی شدت کے ساتھ بے رحمی ،وحشی پن ، ظلم و جبر اور دہشت گردی کاارتکاب کرے گا،لیکن قومیں مرنے سے کبھی ختم نہیں ہوتے ہیں بلکہ جب ہم اجتماعی طورپر خوف کاشکار ہوئے تویہ قومی موت ہوگااور ہماری بے خوفی دشمن کو خوف زدہ کرکے شکست کی جانب تیزی سے دھکیل دے گاہم شہیدکو سلام کرتا ہیں ہم ان کی کمی تاابد محسوس کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز