Homeآرٹیکلز"بی این ایم" کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی، "اپنی عید اور اپنا...

“بی این ایم” کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی، “اپنی عید اور اپنا ہیش ٹیگ” ، تحریر: دادشاہ بلوچ

“بی این ایم” کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی، “اپنی عید اور اپنا ہیش ٹیگ”

تحریر: دادشاہ بلوچ

وہ عصر کے آذان سے تقریبا 10 منٹ پہلے کمرے میں داخل ہوئے، روزے سے نڈھال میں پاؤں پھیلائے کمرے میں پڑا ہوا تھا، وہ بولنے لگے کہ چلو افطاری کا اہتمام کرکے جلدی سے دسترخوان لگا دو، غضب کی پیاس لگی ہے اور بھوک کی تو پوچھو مت، بس یارا تھوڑا جلدی ہوجائے، مرے جارہا ہوں یار۔
میں نے حیرانگی کے عالم میں ان کو دیکھا اور کہا کہ صاحب کیا ہوا خیر تو ہے، ابھی لوگوں نے عصر بھی نہیں پڑھی ہے اور تم افطاری کی اہتمام اور دسترخوان لگانے کی باتیں کررہے ہو؟ خیریت۔
وہ گویا ہوئے اچھا اسکا مطلب کہ افطاری ابھی نہیں کرسکتے ہم ؟
افطاری !! کیسے اس وقت تم افطاری کروگے، ابھی سورج غروب ہونے میں قریبا 2 گھنٹے سے زیادہ وقت باقی ہے، اور مغرب کی آذان سے پہلے کی افطاری میں آج پہلی بار تمھارے منہ سے سن رہا ہوں جناب۔
یعنی کہ ہم غروب آفتاب سے پہلے روزہ نہیں کھول سکتے، اچھا ایک بات بتاؤ مجھے، یہ کس نے کہا ہے کہ افطاری لازما مغرب اور غروب آفتاب پر ہی کی جاسکتی ہے؟
یہ اللہ تعالی کا حکم ہے، کہ پورے دن روزے رکھو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد تک، یہ ایک احکام ہے، اصول پرستی ہے اور روایت بھی یہی ہے کہ آذان مغرب سے پہلے کھانے والے کا روزہ ضائع چلا جاتا ہے۔
مطلب کوئی کام اگر وقت سے پہلے کیا جائے تو وہ بے اثر ہوگا، وہ استفسار کررہے تھے۔
بے اثر جائیگا کیا، بھائی یہ تو پاگل پن ہے، میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک چیز کے لیئے وقت مقرر ہے اور وہ وقت ابھی تک داخل نہیں ہوا ہے تو کس طرح سے آپ اس چیز کو کرسکتے ہو، یہ شوق نہیں ہے مقصد ہے، عبادت ہے، پابندی ہے، اور اصولوں کی پیروی ہے، کبھی عشاء کے وقت فجر پڑھی ہے تم نے یا عصر کے ساتھ مغرب؟
وہ انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ چلو چھوڑو ان باتوں کو چلیں افطاری کے بعد وہ مین روڑ والے رائل بیکری سے ایک بڑٓا سا کیک کا آرڈر دے آتے ہیں، اور ہاں موم بتیاں بھی خریدیں گے۔
میں اپنے منہ پر تحیر کا تصویر سجائے اس کو سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا، بھائی کیا ہوا خیر تو ہے، آخر اتنی اناپ شناپ کیوں بکے جارہے ہو، روزے نے دماغ پر اثر کر لیا کیا؟
وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ ویسے اس سال آپ کتنے سال کے ہونگے اسی حساب سے ہی موم بتیاں خریدیں گے؟
کیوں، میں نے اس سے پوچھا یہ موم بتی یہ کیک یہ کس لیئے اور ان سے میرے سن پیدائش، سال اور عمر کا کیا لینا دینا، کہیں میری یاد میں موم بتیاں جلانے کا ارادہ تو نہیں کر بیٹھے، ابھی میں زندہ ہوں، میں نے مسکراتے اسکی طرف دیکھا۔
ارے میرے بھولے بھائی، آپکا برتھ ڈے منائیں گے کل افطاری پہ، کیک کاٹیں گے، موم بتیاں جلائیں گے، ہلہ گلہ کریں گے، خوشیاں بانٹیں گے، اس لیئے پوچھ رہا ہوں۔
میں ہکہ بکہ بالکل صم بکم اسے گھورے جارہا تھا برابر خاموش، میں سوچ رہا تھا یہ آج بالکل پاگل ہوگیا ہے۔
یا پھر اسے کوئی اور شرارت سوجی ہے، میں اپنی سوچوں میں گم اسے گھورے جارہا تھا کہ اس نے کہا ہاں بھائی کیا ہوا خاموش کیوں ہو گئے، چلیں ناں پھر افطاری کے بعد۔
اپنی سوچوں سے نکل کر میں نے نظر بھر کر اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ دیکھ بھائی یہ میری زندگی کا اکتالیسواں بہار ہے، بچپن کا مجھے نہیں پتہ لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہوں کسی نے میرا برتھ ڈے منانا تو اپنی جگہ مجھے کسی نے آج تک برتھ ڈے وش بھی نہیں کیا، اور ویسے بھی میرے برتھ ڈے کو 2 ماہ سے زیادہ باقی ہیں، اگر منانا ہی ہے تو پھر اگست کے دوسرے ہفتے کو آجاؤ کیک اور موم بتیاں لے کر، ابھی یہ پاگل پنا چھوڑ اور مجھے آرام کرنے دو، ویسے بھی ان گرمیوں میں روزے کی پیاس نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے، اوپر سے آپکی یہ بے ربط باتیں، آؤ آرام کرو افطاری کو ابھی بھی ڈیڈھ گھنٹے باقی ہیں۔
مطلب آپکا برتھ ڈے 2 ماہ بعد ہے، چلو کل منا ہی لیتے ہیں، کیا حرج ہے، کل مناؤ بھائی، خوشی ہی تو منانا ہے، آج مناؤ یا کل مناؤ یا پھر دو ماہ بعد مناؤ، اس میں کیا حرج ہے؟
میں اب سمجھ گیا تھا کہ وہ بیٹھنے والے ہیں نہیں اور اسے کچھ شرارت سوج رہی ہے اس لیئے وہ اب تکرار پہ تکرار کیئے جارہے ہیں، سو میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا، اس کو پرلے منت کرکے اپنے پاس بٹھا کر کہا کہ دیکھ بھائی کس بات کی خوشی، کونسی خوشی منانا چاہتے ہو؟
کہنے لگے کہ آپکی پیدائش کی خوشی۔ آپکا سالگرہ،
بھائی میں یہی تو کہہ رہا ہوں کہ میرے سالگرہ کو ابھی 2 ماہ سے زیادہ کا وقت باقی ہیں، ابھی تم کیا خوشی مناؤ گے سالگرہ کی، اگر برتھ ڈے منانا ہے تو اسی دن مناؤ جس دن میں پیدا ہوا تھا، یہ کل کے دن کیا خوشی منانی ہے آپ نے۔
اب وہ مسکرا رہے تھے، کہنے لگے کہ افطاری کی طرح اب یہ سالگرہ بھی اسی دن ہی منائی جائی گی جس دن بندہ اس دنیا میں آیا ہے، مطلب اس کے لیئے کسی اور دن کو چن کر اپنی مرضی سے خوشی منایا تو وہ بھی افطاری کی طرح بارگاہ خداوندی میں قبولیت کی شرف نہیں پائے گی۔
سالگرہ منانا کوئی خدائی احکام نہیں ہے جو قبولیت کی شرف حاصل کرسکے، یہ ایک دنیاوی رسم ہے اور لوگ اپنے پیاروں کی اس دنیا میں آنے کی خوشی میں اس دن کو خوشی کے طور پر مناتے ہیں اور بس، لیکن ہاں یہ ہے کہ مغرب کی آزان سے پہلے افطاری کی طرح تاریخ مقررہ سے پہلے برتھ ڈے منانے کا رواج بھی نہیں ہے اور یہ کوئی بھی نہیں کرتا، ہر واقعہ چونکہ کسی وقت پر کسی دن کو ہی وقوع پذیر ہوا ہوگا سو اسی دن اسی مناسبت سے اسکی یاد منائی جاتی ہے اور اسے یاد کیا جاتا ہے، اس پر احتجاج کیا جاتا ہے یا اس پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، رونے اور غمزدگی کا اظہار کیا جاتا ہے، یہ کسی بھی واقع کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر پر ایٹم بم گرانے کی اپنی ایک تاریخ ہے جہاں 6 اور 9 اگست کو بالترتیب دو ایٹمی حملے ہوئے اور انہی دنوں میں ان کی یادیں منائی جاتی ہیں، مذمتی بیانات دیئے جاتے ہیں اور مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں، امریکہ میں یوم آذادی منائی جاتی ہے، دنیا بھر میں مشترکہ طور پر بہت سارے دن مختلف مناسبت سے منائے جاتے ہیں، لیکن وہ دن ہر سال ٹھیک اسی دن کو ہی منائی جاتی ہیں جس دن سے وہ منائی جاتی رہی ہیں۔
ویسے کل اگر آپکی برتھ ڈے منائی جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ وہ پھر سوال کرتے ہوئے مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھے۔
میں نے کہا کہ حرج تو خیر کچھ بھی نہیں ہے لیکن دنیا اس پر ہنسے گی، جس دن آپ پیدا ہی نہیں ہوئے اس دن برتھ ڈے منانے کا کیا تک بنتا ہے بھلا، انسان کی پیدائش ایک واقع ہے جسے عموما خوشی کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے، اور یہ دن سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور اس کو کسی اور دن منانے سے حرج محض یہی ہے کہ دوستوں اور رشتہ داروں کو بتانا پڑے گا انکو بالخصوص آگاہ کرنا پڑے گا کہ کل میرے برتھ ڈے کی خوشی میں ایک پروگرام ہے یا پارٹی رکھی جارہی ہے، اور اگر کوئی تسلسل کے ساتھ ہر سال اپنی سالگرہ مناتا ہے تو اس مخصوص دن کو اسے کسی کو بتانا نہیں پڑے گا کہ آج میرا برتھ ڈے ہے، بلکہ وہ دن ہر کسی کو یاد رہتا ہے، آج کل تو خیر سمارٹ ڈیوائسز کا دور ہے جہاں ہر لمحے کی باقاعدہ یاددہانی آپکو کرائی جاتی ہے، مقررہ وقت پر کسی شئے پر اظہار نفرت، اظہار افسوس یا خوشی کا اظہار کرنے میں آس پاس کے جڑے ہوئے لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ مدعا کیا ہے اور یہ سب کیوں کیا جارہا ہے، اگر کسی دوسرے دن میں وہ دن منایا جائے تو یہ کم از کم روایتی تعقل پسندی کے خلاف تصور کیا جائے گا۔
اچھا۔ وہ برابر مسکرائے جارہا تھا، ایک بات بتاؤ، پاکستان نے ایٹمی تجربے کب کیئے تھے؟
28 مئی 1998 کو اور پھر ایک اور دھماکہ 30 مئی کو کیا تھا، یہ آج بھی پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے نہ صرف اخباری کٹنگ بلکہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اس دن کی ویڈیو کلپس بھی موجود ہیں، اور ہر 28 مئی کو پاکستان یوم تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں، مجھے معلوم ہے یہ سب وہ بیچ میں میری بات کاٹتے ہوئے چہرے پر سنجیدگی کے آثار لیئے کہنے لگے کہ ہم بلوچوں کے لیئے یہ دن کیا ہے، اور اسکی حیثیت کیا ہے، اور جب سے یہ تجربے ہوئے ہیں، بلوچ قوم کے مختلف حلقے اس پر اپنی نفرت کا اظہار تواتر کے ساتھ کرتے چلے آرہیں ہیں، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ گزرے ہوئے 19 سالوں میں کبھی کسی بلوچ حلقے، تنظیم یا پارٹی نے 28 مئی سے پہلے ان ایٹمی تجربات کے خلاف کوئی احتجاج کیا ہے، کوئی احتجاج یا جلسہ ہوا، البتہ انکا ذکر یا انکے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں پورا سال لیکن خاص الخاص اس دن کے حوالے سے اگر کوئی احتجاج یا آگاہی مہم ہوئی ہے تو کیا وہ اس دن سے پہلے یا بعد میں کبھی آپ نے سنا ہے؟
نہیں، میں نے تو نہیں کم از کم نہیں دیکھا، جب سے ہم دیکھ رہے ہیں 28 مئی کو یوم آسروخ منایا جاتا ہے، اس کے مناسبت سے احتجاج کی جاتی ہیں اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے، 13 نومبر کو یوم شہدا بلوچستان منایا جاتا ہے، 27 مارچ کو یوم جبری قبضہ منایا جاتا ہے، اور منطقی بنیادوں پر انہیں تاریخوں پر ہی یہ دن منانے جانے چائیے کیونکہ انکا اپنا اپنا تاریخی پس منظر اور بیانیہ ہے۔
تو پھر یہ 26 مئی کو یوم آسروخ کی نسبت احتجاج و بیان بازی کا کیا تک بنتا ہے، کیوں بی این ایم نے مقررہ تاریخ سے پہلے یہ دن منایا اور اسی دن بی این ایم کے جرمنی میں چند دوستوں نے باقاعدہ تنظیمی ایما پر نہ صرف 26 مئی کے دن 28 مئی کو ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کیا بلکہ اپنا ایک الگ ہیش ٹیگ بھی پیش کیا، کیوں ، اسکی توجیح کیا ہے، یا اسکے بابت آپکے پاس کوئی عقلی دلیل ہے؟
میں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس دن وہ فارغ ہوئے ہوں اور 28 مئی کو انکے لیئے شاید یہ پروگرام منعقد کرنا ممکن نہ رہا ہو، مصروفیت کی وجہ سے یا پھر کوئی اور مسئلہ درپیش رہا ہوگا، یا پھر کچھ وجوہات ہیں جو کہ ہم اور آپ نہیں جان سکتے۔
اچھا یہ تو خیر کوئی قابل قبول توجیح نہیں ہوسکتی کہ فارغ نہیں تھے یا ممکن نہیں تھا، یہ کوئی کھیل تو ہے نہیں یہ ایک قومی تحریک ہے اور اس میں غلطیوں اور خامیوں کی قیمت خون کی صورت ادا کی جاتی ہے اور کی جارہی ہے، اب وہ قدرے جذباتی ہوگئے تھے۔
الگ ہیش ٹیگ کا آپ نے جواب نہیں دیا اسکی کیا توجیح ہوسکتی تھی، وہ قاسم مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی یاد ہیں آپ کو، وہ طنزیہ باتوں میں مشغول مگر چہرے پر سنجیدگی نمایاں رکھے ہوئے تھے، بالکل اسی طرح اب بلوچ تحریک میں بھی عید سے پہلے عید کے مصداق مقررہ دن سے قبل احتجاج و پروگرام کی ریت شروع کی جاچکی ہے اور پاکستان میں ہر عید پر دو ، دو عیدوں کی طرح اب 2 ہیش ٹیگ چلائے جاتے ہیں، یہ کیا ہے؟
میں نے سوال واپس اسکی طرف موڑتے ہوئے جواب دیا کہ بھائی آپ جب سے آئے ہو، اسی نقطے پر پہنچنے کے لیئے ادھر ادھر کی ہانک رہے ہو، کبھی آذان سے پہلے افطاری اور کبھی میری سالگرہ کی بات کررہے ہیں، لازما آپکو اندازہ ہوگا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے سو آپ ہی بتائیے کی ایسا کیوں ہے۔
صحیح کہہ رہے ہو بھائی، اسی لیئے میں آپ سے یہی کہہ رہا تھا ، تاکہ آپ سے سنوں کہ جب مقررہ وقت یا کسی شئے کو لے کر اسکی مناسبت سے کی جانے والے عمل اگر وقت سے پہلے انجام دیا جائے تو اسکا شاید اثر کم ہو جاتا ہے، یا پھر اس میں سقم اور بد نیتی کی عنصر موجود ہوتی ہے، سو یہ سیاسی حوالے سے ہونے والے پروگرام جہاں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر کوئی پہلے منزل پانا چاہتا ہے اور اسی جلدی میں اب مقررہ تاریخ، واقعات کے دن، احتجاج میں استعمال ہونے والے تاریخی پس منظر رکھنے والی باتیں سب کو متنازعہ بنانے کی سعی کی جارہی ہے، بس اس میں مقصد اور کوشش یہی ہے کہ میرا نام نمایاں ہوجائے اور سب میں سے ہم بازی لے جائیں۔
سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی ہیش ٹیگ جسے سالوں سے سوشل میڈیا سے وابستہ بلوچ سیاسی کارکن استعمال کررہے ہیں اب اسکی جگہ ایک نیا ہیش ٹیگ متعارف کیا گیا ہے، مطلب بے حسی اور غیرسنجیدگی کی انتہا ہوگئی ہے، اور توجیح دی گئی ہے کہ ہم دونوں ہیش ٹیگز استعمال کریں گے، کہتے ہیں کہ دونوں کو استعمال کرو استعمال میں کیا حرج ہے، اصل میں مسئلہ بنیادی طور پر یہ نہیں کہ تم دونوں ہیش ٹیگز کو استعمال کروگے یا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک تاریخی پس منظر رکھنے اور متفقہ ہیش ٹیگ کا ہوتے ہوئے دوسرے کی متعارف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اصل میں اس چیز کا جواب چاہئیے تھا، اسی پس منظر میں سوالوں کے جوابات ابھی تک کسی کو نہیں ملے اور کسی نے اس بابت لب کشائی نہیں کی، اور اس ایشو کو محض اس بات پر ختم کرکے ایک طرح سے احسان جتایا گیا کہ ہماری فراخدلی دیکھ ہم دنوں ہیش ٹیگز کو استعمال کررہے ہیں، دوسرے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس بارے میں کوئی بات نہیں کوئی وضاحت نہیں۔
اب وہ بلا کسی تدارک کے بولے چلے جارہے تھے، اچھا اسکا مقصد کیا تھا کہ اپنی پارٹی کی الگ ہیش ٹیگ کو استعمال کریں، اور مقررہ دن سے پہلے احتجاج کریں، اسکی بنیادی وجوہات 2 ہی ہیں ایک تو یہی کہ 2 دن پہلے احتجاج کرکے اس میراتھن ریس میں پہلے نمبر پر آیا جایا ہے، نمایاں ہونا ہی اہم ہے باقی اصول، ضوابط اور منطق و طریقہ کار سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، دوسرا یہی کہ اپنا ہیش ٹیگ ہوگا اس سال اگر نیا ہے اس پر سوال اٹھ رہے ہیں تو اگلے سال یہ ایک سال پرانا ہیش ٹیگ ہوگا اس کی تاریخی پس منظر بن جائیگا، اور پھر یہ سوال بھی نہیں کہ کیوں دو دو ہیش ٹیگ کے ساتھ کام کیا جارہا ہے، بلکہ اگلے سال ہمیں پارٹی حیثیت سے باامر مجبوری دو ہیش ٹیگ استعمال کرنے بھی نہیں پڑیں گے، اپنی پارٹی ہے، اپنا ہیش ٹیگ ہوگا اور 2 دن پہلے احتجاج کرکے ہم اس تحریک کی میراتھن ریس اگر دشمن سے نہیں کم از کم اپنوں سے جیت جائیں گے، خود اپنے آپ سے ایک مقابلہ بازی کا گھماسان چل رہا ہے۔
گھڑی دیکھی تو افطاری کو 10 منٹ باقی تھے، اللہ کا شکر ادا کرکے اسکی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے میں نے کہا کہ چلیں افطاری لگ چکی ہے دس منٹ بعد آذان ہے، باقی باتیں پھر کبھی۔
چلو پھر، وہ ہنستے ہوئے اٹھے، لیکن یہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی نما سیاسی لیڈر اور قاسم مسجد نما سیاسی پارٹیاں ہر سال اور ہر موقع پر عید سے پہلے عید منائیں گے، اور شاید بہت سارے معاملوں میں عصر سے پہلے افطاری بھی کرلیں جیسا کہ 26 مئی کو 28 مئی کا دن منانا، وہ اب سنجیدگی سے پھر تمسخرانہ پن پہ اتر چکے تھے، اچھا ہوا ہمارا وقت کٹ گیا وگر نہ اس پیاس کی شدت نے ہمیں بھی 28 مئی کا کام 26 مئی کو کروا لینا تھا، اللہ معاف کرے۔

Exit mobile version