بیجنگ (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے چار دن میں چین نے تائیوان کے فضائی دفاعی زون میں 148 جنگی طیارے بھیجے۔ اس عمل کو چار دہائیوں میں دونوں ہمسایوں کے درمیان بدترین کشیدگی قرار دیا گیا
تفصیلات کے مطابق گذشتہ ہفتے چار دن میں چین نے تائیوان کے فضائی دفاعی زون میں 148 جنگی طیارے بھیجے۔ اس عمل کو چار دہائیوں میں دونوں ہمسایوں کے درمیان بدترین کشیدگی قرار دیا گیا
چین کی طرف سے فوجی سرگرمی اضافے کے نتیجے میں ہمسایہ ملک تائیوان کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کے باجود چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے چین کے ساتھ پر امن طور پر دوبارہ اتحاد کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
چین پر آخری شاہی خاندان کی حکومت کے 110 سال مکمل ہونے پرہفتے کو ہونے والی تقریب میں سیاست دانوں سے خطاب میں صدر شی نے کہا: ’قوم کا دوبارہ اتحاد لازمی طور پر حقیقت بننا چاہیے اور یہ اتحاد یقینی طور پر حقیقت بنے گا۔
انہوں نے’تائیوان کی افواج آزادی‘ کو تائیوان کے دوبارہ چین کا حصہ بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا: ’جو لوگ اپنا ورثہ بھول جاتے ہیں، وہ اپنے وطن کو دھوکہ دیتے ہیں اور ملک کو تقسیم کرنے کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
20 ویں صدی کے وسط میں تائیوان کی چین سے علیحدگی کے بعد سے دونوں ملکوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں لیکن جزیرے پر کبھی حکومت نہ کرنے کے باوجود بیجنگ تائیوان کو اپنے علاقے کا حصہ سمجھتا ہے۔ صدر شی نے’ایک ملک دو نظام ‘کی پالیسی کے تحت دوبارہ اتحاد کا اپنا منصوبہ پیش کیا۔ تائیوان اس تنظیم نو کا سخت مخالف ہے۔ صدر شی نے کہا کہ لوگوں کو قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے چینی عوام کے عزم کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ چین کے مکمل اتحاد کا ہدف حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ لازمی طور پر حاصل کیا جائے گا۔‘
چینی صدر کا یہ بیان تائیوان کی طرف سے خطرے کے اظہار کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ تائیوان نے کہا تھا کہ چین 2025 تائیوان پر’بڑا حملہ‘کر سکتا ہے۔ تائیوان کی صدر سائے اینگ وین کا کہنا تھا کہ ان کا ملک جنگ نہیں چاہتا لیکن ضروری ہوا تو اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔
تائیوان کی صدر کے بقول تائیوان فوجی محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اسے اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن، پائیدار، قابل پیشگوئی اور دو طرفہ مفاد پر مبنی بقائے باہمی کی امید ہے۔ لیکن اپنی آزادی اور جمہوری طرز زندگی کے دفاع کے لیے اسے جو بھی کرنا پڑا وہ کرے گا۔