تہران(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ میں قانونی کمیٹی کے سربراہ اور مذہبی شخصیت موسی غضنفر آبادی نے احتجاجیوں کے “تخریبی ارادے رکھنے” کی صورت میں ان پر فائرنگ کو شرعا درست عمل قرار دیا ہے۔ ایرانی ویب سائٹ “روئداد 24” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں موسی کا کہنا تھا کہ “اگر کوئی شخص احتجاج اور مظاہروں کے دوران میں کسی تباہ کن عمل کا ارادہ رکھتا ہے تو ضرر کو دور کرنے کے لیے اس پر گولی چلائی جا سکتی ہے”۔ غضنفر آبادی نے اس فائرنگ کے جواز کو حکومتی سرکاری سیکورٹی فورسز تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ “سیکورٹی فورسز کے علاوہ جو کوئی بھی خطرے اور نقصان کا وقوع دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ عملی طور پر مداخلت کرے۔ اس کے واسطے شرعی اور قانونی رخصت ہے”۔موسی غضنفر آبادی کا یہ بیان ایران کے تیسرے بڑے شہر اصفہان میں ہونے والے وسیع مظاہروں کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ دریائے زائندہ رود کے خشک ہونے پر مذکورہ عوامی احتجاج وک سختی سے کچلا گیا تھا۔اصفہان میں مظاہرین کے خلاف پر تشدد کریک ڈاؤن پر تبصرہ کرتے ہوئے غضنفر آبادی کا کہنا تھا کہ “ہمارے ملک میں بنیادی طور پر قانون کے تحت معاملہ کیا جاتا ہے تاہم بعض اوقات تصادم نا گزیر ہو جاتا ہے۔ اس وقت جب کہ مظاہرین ملک کو نقصان پہنچانے والا عمل کرنا چاہتا ہے تو پھر مقابلہ واقع ہو سکتا ہے۔سماجی کارکنان باور کرا چکے ہیں کہ اصفہان کے مظاہرے اپنے آغاز سے ہی پْر امن تھے اور اسی روش پر جاری رہے۔ یہاں تک کہ جمعے کے روز سیکورٹی فورسز نے احتجاجیوں پر دھاوا بول دیا اور ان کے خیموں کو آگ لگا دی۔ علاوہ ازیں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا اور ان کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔ بعض وڈیو کلپوں میں عسکری وردی میں ملبوس مسلح افراد کو پْر امن احتجاجیوں پر براہ راست گولیاں برساتے بھی دیکھا گیا۔