تہران (ھمگام انٹرنیشنل) ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل نے سب سے اہم خودمختار ادارے کے طور پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تہران کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ جن معاملات میں ایران نے معاہدے کیے ہیں ان پر عمل کے لیے ایران کا عزم پیچیدہ علاقائی مسائل میں پیش رفت کی راہ ہموار کرے گا ۔ اس وقت خطے میں سلامتی اور استحکام کی ضرورت ہے۔ تہران اور بغداد کے درمیان سیکورٹی معاہدے کے ایرانی کرد پارٹیوں کی صورت حال پر اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جو عراق کے کردستان علاقے میں سرحدی علاقوں میں مقیم ہیں۔
معاہدے پر سختی سے عمل
ایران نے عراق میں ایرانی کرد جماعتوں کے حوالے سے خطے میں انقلاب مخالف قوتوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے بغداد اور تہران کے درمیان ہونے والے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کا بار بار مطالبہ کردیا۔ علاوہ ازیں سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل میں ایرانی سپریم لیڈر کے نمائندے اور اس کونسل کے سکریٹری ایڈمرل علی شمخانی ایک وفد کی سربراہی میں اتوار 19 مارچ کو بغداد پہنچے اور انہوں نے معاہدے پر دستخط کئے۔ عراقی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر قاسم الاعرجی کے ساتھ ایک سیکورٹی معاہدہ ہوا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس پر کئی مہینوں سے بات چیت جاری تھی۔
تہران کی خارجہ پالیسی کے معاملات کو ترتیب دینے اور انتظام کرنے میں علی شمخانی کے کردار میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے۔ علی شمخانی نے اپنے سفر کا آغاز 16 مارچ کو امارات کا دورہ کرکے کیا تھا اور 10 مارچ کو چینی ثالثی میں سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بحال کیا گیا تھا۔
اگرچہ تہران اور بغداد کے درمیان ہونے والے سیکورٹی معاہدے کا متن ابھی تک شائع نہیں ہوا لیکن شواہد اور خاص طور پر ایران کی جانب سے آنے والے بیانات کے مطابق اس کا ایک اہم حصہ عراقی کردستان میں ایرانی حکومت کی مخالف کرد تنظیموں کے حالات سے متعلق ہے۔
مزید برآں ایرانی سٹوڈنٹس نیوز ایجنسی (ISNA) نے عراق کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے بعد علی شمخانی کے اس تبصرے کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی شقوں پر سختی سے عمل درآمد کے ساتھ دہشت گردی کے خطرات کو نمایاں طور پر کم کرنے ملے گی۔ سرحدوں پر سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سے متعلق مزید جامع ترقی کے لیے میدان دستیاب ہوں گے۔
دہشت گرد اورعلیحدگی پسند گروپ
تہران عراق کے کردستان ریجن میں اپنی مخالفت کرنے والی ایرانی کرد جماعتوں کو دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروپ قرار دیتا ہے اور ان پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کا الزام بھی لگاتا ہے۔ تہران نے ایرانی کرد تنظیموں پر عدم تحفظ پیدا کرنے اور شہریوں کو اکسانے کا الزام لگا رکھا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (IRNA) کے مطابق علی شمخانی نے قاسم الاعرجی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ کردستان خطے اور شمالی عراق میں دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی مخالف اور شیطانی تحریکوں پر بھی غور کیا گیا ہے۔
عراقی قومی سلامتی کے مشیر نے اس ملاقات میں تاکید کی کہ بغداد معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے پوری کوشش کرے گا اور کسی بھی گروہ یا ملک کو ایران کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے عراقی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
ان تمام بیانات اور یقین دہانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی کردستان میں ایرانی کرد اپوزیشن تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنا تہران کے لیے بہت ضروری ہے۔
مزید برآں ویب سائٹ “نور نیوز” نے اتوار کو ایک رپورٹ میں توقع ظاہر کی ہے کہ بغداد اور تہران کے درمیان سیکیورٹی معاہدے پر دستخط فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس سے انقلابی عسکریت پسندوں کی غیر قانونی موجودگی کو ختم کرنے اور ایران کی شمال مغربی سرحدوں میں اسرائیل سے وابستہ عناصر کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
گزشتہ مہینوں میں ایرانی پاسداران انقلاب نے بارہا مارچوں کے ذریعے عراق میں ان جماعتوں کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ کرد پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عراقی سرزمین سے ایرانی اہداف کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی ہے۔