ہمگام اداریہ : ایسا ممکن نہیں کہ جن عظیم بلوچ بیٹوں، بیٹیوں بچوں اور بزرگوں نے اپنی جان و مال، اپنا سب کچھ اس دھرتی کے لیے لٹا دیا ہے ہم ان کی قربانیوں کو یاد کرتے ، کرتے اکتا جائیں گے یا ہر دن ہر ماہ تعزیتی ریفرنسز منعقد کرنے کا وسیلہ نہیں رکھتے۔ جن ہزاروں بلوچوں نے صدیوں سے اپنی وطن کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں ان کو دن رات چوبیس گھنٹے بیٹھ کر بھی تواتر کے ساتھ یاد کریں تب بھی کم ہے۔ جنہوں نے اپنی وطن کے لیے جان کی بازی لگائی ہے وہ ہماری یاد کرنے یا نہ کرنے کا محتاج تو نہیں لیکن ہماری بحیثیت قوم کیا ذمہداری بنتی ہے؟ کوئی بھی شہید کسی سے برتر یا کمتر نہیں ہوتا۔ انہوں نے جس قومی مقصد کے لیے خود کو قربان کیا ہے ان کی یہ مقصد انہیں ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے، ذمہ داریوں اور تنظیمی منصب و دائروں سے ہٹ کر ان کے رتبے اور حیثیت اعلی مقام پر ہے۔ بلوچ ایک ہی ماں باپ کے بیٹے اور ہماری سرزمین بھی ایک ہے ہاں برطانوی سامراج نے ہماری سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹ دی ہے۔ تیرہ نومبر کا دن اپنی نوعیت کے اعتبار سے بلاشبہ ایک اہم دن ہے جہاں شہید مہراب خان (اول) نے انگریز حاکموں کو للکارا اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے ہمراہ بلوچ وطن کی دفاع میں جان قربان کر دی۔ ہرقوم میں ایسے کردار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اپنی قوم کی رہنمائی کی۔ پنجابی اور گجر قابضین ہروقت یہی زہریلا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے کہ بلوچ نواب و سردار خود تو بنگلوں اور محلوں میں رہتے ہیں لیکن عام غریب بلوچوں کو مرنے کے لئے پہاڑوں کا رخ کراتے ہیں۔ سادہ لوح بلوچ واقعی تہران اور اسلام آباد کی اس شاطرانہ پروپیگنڈے کا نشانہ بنتے ہیں وہ اپنی تاریخ کو ٹٹول کر ماضی کے قابض قوتوں اور فوجی یلغار ، بیرونی حملہ آوروں کی بلوچستان پر چڑھائی کا باریک بینی سے تجزیہ نہیں کرتے۔ تہران اور اسلام آباد کی اس زہریلی پروپیگنڈے کا شکار وہ لوگ آسانی سے بن سکتے ہیں جن کا ایمان اور دین ، کرسی، عہدہ، حیثیت، عارضی منصب، پیسہ، بنگلہ، گاڑی کا حصول ہوتا ہے۔ اس قبیل سے تعلق رکھنے والے اگر تحریک آزادی کا حصہ بنتے بھی ہیں تو معمولی مراعات، لالچ اور خوف کا شکار ہوکر سودے بازی اور حقیقی ڈگر سے پھسل جاتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ اپنے پارٹی عہدیداران اور کارکنان کو اپنے اس سودے بازی پر دلیل، منطق پیش نہ کرنے کی صورت میں اسے حکمت عملی کا نام دے کر کچھ وقت کیلئے اپنے سر کو ریت میں دھنسا دیتے ہیں اور بے چارے کارکنان بھی بز اخپش کی طرح لاچاری اور بے بسی کی عالم میں اپنی سر ہاں میں ہلاکر چھپ کا سادھ لیتے ہیں ان کو یہ پتہ نہیں کہ قومی معاملات پر سودے بازیوں اپنے عظیم شہدا کے قیمتی لہو کے ساتھ دھوکہ اور وطن پر بیٹھے قبضہ گیروں کو ہماری قومی غلامی کو دوام بخشنے کے لیے وقت دینے کے مترادف ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ آپ قبضہ گیر سے اپنی آزادی کا جنگ اس لیے شروع نہیں کرتے کیونکہ آپ کمزور ہیں جیسے کہ کچھ حضرات ایرانی قابض ریاست کی بلوچ قوم کی انسانی اور معاشی نسل کشی پر لب بہ مہر ہوکر کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی وقت میں ایران و پاکستان کے خلاف جنگ نہیں چھیڑ سکتے۔ وہ ایران میں بسنے والے بلوچوں کی آبادی کو بلوچ تحریک میں شامل کرنے ، اس میں ان کو حصہ دار بناکر منتشر قومی طاقت کو اکھٹا کرنے کی بجائے الٹا گجر کو شہہ دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ایران کے زیر قبضہ بلوچستان پر ہاتھ بھاری رکھے۔ ہم آپ کے اس ظلم پر کوئی ماہانہ اور سالانہ رپورٹ مرتب کرنا تو دور چار سطروں پر مبنی ایک بیان بھی جاری نہیں کریں گے۔ ایسے لوگ پھر دنیا سے گلا پھاڑ کر بلوچ قومی تحریک کی حمایت کی اپیلیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے بلوچ بھائی کی ایرانی قابض فورسز کے ہاتھوں شہادت پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں۔ تیرہ نومبر کو بلوچ شہدا کو قومی دن کے طور پر تو مناتے ہیں لیکن کیا ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ان کی تعزیتی ریفرنسز اور پروگرامز میں گجر کے ہاتھوں پھانسیاں چڑھنے، اور دیگر ذریعئے سے شہید کئے گئے بلوچوں کے قاتل ایران کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے ؟ ایرانی مظالم کے خلاف وہ اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کیوں نہیں کرتے ؟ بلوچ سیاست میں جو کوئی قابض ایران کی جانب سے بلوچ قومی نجات کی خاطر خیر و ومدد کی امید رکھے ہوئے ہوئے ہے، ان کیلئے عالمی طاقتوں خصوصا امریکہ کی جانب سے ایران پر سخت قسم کے معاشی و سیاسی پابندیاں مقام عبرت کے طور پر کافی ہے ،جبکہ ایران کی عالمی سطح پر سیاسی تنہائی ،معاشی بحران , معاشرتی انارکی کیونکر کیسے کسی محکوم کیلئے معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے؟ ایران سے ایرانی گجر کے ہاتھوں اپنی بلوچی ننگ و ناموس، شناخت کو درپیش خطرات سے کیوں غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ کارکنان اپنے پارٹی رہنماوں سے دریافت کرنے کی جرات کرسکتے ہیں وہ تیرہ نومبر کے دن صرف پنجابی کے ہاتھوں شہید کئے گئے بلوچوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اکھٹے ہوتے ہیں یا پھر تعزیتی پروگرامز کے دن ایرانی گجر کے ہاتھوں شہید کئے گئے معصوم بلوچوں کی شہادت پر بھی کچھ بولیں گے ، اس دن ایران کے خلاف بھی مذمتی قرار داد پیش کرکے اپنی قومی ذمہداری نبھائیں گے؟ تیرہ نومبر کو بلوچ شہدا کے قومی دن کے طور پر منانا کافی نہیں،بلکہ ہمیں اس دن اپنے تمام قومی شہدا کے قاتلوں کی واضح شناخت کرکے ان کی اس بلوچ نسل کشی میں قومی آواز بننا ہے ، امید ہے بلوچ قوم کے غیور اور تاریخ سے بلد باشعور طبقہ ایران و پاکستان دونوں کے گولی اور پھندے سے شہید ہونے والے بلوچوں کو یکساں طور پر یاد کرینگے ۔