واشنگٹن(ہمگام نیوز) پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ہے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاہدے کو امتیازی سمجھتا ہے۔اعزاز چوہدری اس پاکستانی وفد کی قیادت کررہے تھے، جس نے یہاں منگل کو سیکیورٹی، اسٹریٹیجک استحکام اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاملات پر امریکی حکام کے ساتھ ملاقات کی۔
سیکریٹری خارجہ سے اس ملاقات کے بعد ایک بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ اگر واشنگٹن کہے تو کیا اسلام آباد این پی ٹی پر دستخط کردے گا تو انہوں نے کہا ’’یہ ایک امتیازی معاہدہ ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لہٰذا پاکستان این پی ٹی دستخط نہیں کرے گا۔ اور ہمیں اس پر دستخط کیوں کرنا چاہیے؟‘‘
واضح رہے کہ 190 ممالک اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں، جسے 1970ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن جنوبی ایشیاء کے دونوں جوہری ریاستیں ہندوستان اور پاکستان اس معاہدے سے باہر ہیں۔
بظاہر این پی ٹی پر عملدرآمد کو فروغ دینے کی امریکی خواہش کے برخلاف پاکستان دو ٹوک انداز میں اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے۔ تاہم امریکی حکام اس معاملے اور دیگر مسائل پر پاکستان کے مؤقف پر عوامی سطح پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔
اگرچہ امریکی ٹیم کی رہنما انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ روز ایلین گوٹیموئلر نے ان مسائل پر کوئی عوامی بیان جاری نہیں کیا، جن پر پاکستان کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا گیا تھا، تاہم ان کے پہلے کے بیانات اسلام آباد سے متعلق مسائل پر واشنگٹن کے محتاط نکتہ نظر کو واضح کرتے ہیں۔
امریکی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کی ایک ٹیم نے جب روز ایلین گوٹیموئلر سے سوال کیا کہ جوہری اسلحہ کے ترک کے عمل میں ہندوستان اور پاکستان کی شراکت کے لیے امریکا کس طرح ان کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے، تو انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے اپنی جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے اقدامات اُٹھائے تھے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ’’بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ علاقائی تناظر میں علاقائی شراکت داروں کے لیے تربیتی کورسز فراہم کرتا ہے، چنانچہ جوہری سلامتی کے معاملات پر وہ اپنے علاقائی تربیتی مراکز قائم کرنے پر رضامند ہیں۔‘‘
جنوبی ایشیا میں جوہری مواد کی پیداوار پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو اپنے جوہری مواد کے ساتھ ساتھ انہیں کنٹرول کرنے اور ان کا حساب کتاب رکھنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا ’’ہم نے کثیر سطح کا نظام اور ایک مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام قائم کیا ہے۔ ‘‘
انہوں نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا کہ پاکستان کم سے کم ڈیٹرنس برقرار رکھے گا، لیکن وہ کسی کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ ’’پاکستان ہندوستان کے ساتھ برابری کی بات نہیں کررہا ہے، لیکن ہم جانچ اور توازن کا ایک نظام چاہتے ہیں۔ اس طرح کا توازن امن کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان جامع اسٹریٹیجک استحکام کے تصور پر یقین رکھتا ہے، جس میں روایتی ہتھیاروں کا توازن، جوہری بندش، زیرِالتوا مسائل کے حل شامل ہیں۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی لہر کو جوہری تنصیبات کے نزدیک بھی بھٹکنے نہیں دیا ہے، اور یوں اس نے اپنے جوہری اثاثوں کے مکمل تحفظ کی صلاحیت کو ثابت کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے اقدامات اُٹھائے ہیں، جو کسی دوسرے ملک نے نہیں اُٹھائے، اور اس کو دوسرے ملکوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا گیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ جس طرح کا سول جوہری تعاون کا معاہدہ امریکا نے ہندوستان کے ساتھ کیا تھا، وہ پاکستان کا بھی حق تھا۔
انہوں نے کہا ’’ہماری توانائی کی ضروریات کہیں زیادہ ہیں۔ ہماری بجلی کی پیداوار بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں۔ ہماری تمام تنصیبات آئی اے ای اے کے تحفظات کے تحت ہیں۔ اور اسی لیے سول جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی ہمارا حق ہے۔‘‘
اعزاز چوہدری نے اس طرح کی تجاویز کو مسترد کردیا کہ پاکستان کو ہائیڈل کی طرز کے دوسرے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے آپشن میں ہائیڈل سے جوہری تک کا محفوظ حصول شامل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا منصوبہ ہے کہ 2030ء تک ایک لاکھ 62 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کی جائے، اور اس میں جوہری ذرائع سے کل 8 ہزار 8 سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا معمولی سا حصہ ہوگا۔
سیکریٹری خارجہ نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ آئی ایس اور دوسرے عسکریت پسند گروپس پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔