لندن(ہمگام نیوز) بلوچستان کے ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والے خبر کے مطابق خان آف قلات سلیمان خان احمد زئی نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جرنل کو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدگی کے لئے کہہ دیا، خان آف قلات نے اقوام متحدہ سے گزارش کی ھے کہ بشمول میں اور بلوچ ، مزید پاکستان کا حصہ نہیں رہنا چاہتے اور اقوام متحدہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقوام متحدہ کی ہدایات اور نگرانی میں بلوچستان میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کا عمل کرائے۔
سلیمان خان احمد زئی نے اقوام متحدہ سے بلوچستان کے جبری گمشدگیوں کا بھی ذکر کیا ھے خان آف قلات نے کہا ھے کہ مختلف بین الاقوامی اداروں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور مقامی این جی اوز، پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ہزاروں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیں۔ حکومت پاکستان فوری طور پر جبری گمشدگی کے متاثرین کی قسمت اور ان کے گھر والوں کے بارے میں بتائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انہیں فوری طور پر سویلین عدالت کے جج کے سامنے لایا جائے۔
جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے حکومت پاکستان سول سوسائٹی، خاندانوں اور لاپتہ افراد کے نمائندوں سے بل کے مسودے پر مشورہ کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جرم کی تعریف بین الاقوامی قانون اور معیارات کے مطابق ہو۔
چائنہ پاکستان کوریڈور کے حوالے سے خان آف قلات نے کہا ھے پاکستان اور چائنہ نے سی پیک کے چھتری کے تلے بلوچستان میں لوٹ کسوٹ کا بازار گرم کررکھا ھے اور دنیا میں بلوچستان ترقی کا واویلا کاشور مچاکر گوادر اور بلوچستان کے زمینوں کو بھیج رھا ھے گوادر کے عوام پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، بجلی اور گیس کی عدم دستیابی سے نبردآزما ہیں۔ روزگار کے تمام وعدوں کے باوجود عوام کو اپنی ہی سرزمین گوادر بلوچستان میں محض اجنبی بنا دیا گیا۔
پاکستان کے اندر بلوچوں کے لیے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں بلوچ ہمیشہ کے لیے نقصان اٹھائیں گے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو مقبوضہ سرزمین تسلیم کرے اور پاکستان سے کہے کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے اور بلوچستان کے عوام کو دنیا کی دوسری قوموں کی طرح نارمل زندگی گزارنے کی اجازت دے۔ بلوچ نسل کشی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کو مداخلت کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
واضح رہے کہ مذکورہ خبر سوشل میڈیا میں ایک مقامی پرنٹ میڈیا کی جانب سے شائع کی گئی ہے تاہم اس حوالے سے لندن میں مقیم خان آف قلات سلیمان خان داؤد کی جانب سے تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آئی ہے۔