ہمگام واچ
عالمی طاقتوں کی جانب سے اپنے طویل مدتی منصوبوں اور ایران جیسے مذہبی رجعت و قدامت پسند اور پاکستان جیسے غیرفطری بدمعاش ملکوں کی ناکام داخلہ و خارجہ پالیسی کی وجہ سے آج ہمارے خطے کی جیوپالپٹکس اپنے سرحداتی و جغرافیائی حدود کو تیزی سے عبور کرتے ہوئے مسلسل عملی طور پر کروٹیں بدل رہا ہے۔
اس بارے میں قابل فخر بات یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک نجات کے تھنک ٹینک نے دو دہائی قبل آج کے معروضی حالات کو درست انداز میں بھانپ کر بلوچ وطن کے طول و عرض میں خالص قومی آزادی کے پیش نظر اپنے تن من دھن سب کچھ قربان کرکے وطن کی آزادی کیلئے قومی مزاحمت کی بنیاد رکھ لی۔
اس مزاحمت نے قومی و بین القوامی سطح پر بلوچ قوم کے ساتھ دوسرے مظلوم اقوام جیسے سندھی و پشتون کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرکے دشمن کی طاقت کو تقسیم کرکے اسے مختلف محاز ومشکلات میں پھنسا کر آج تک کیلئے مصروف و سرگرداں کر رکھا ہے۔
ایسے میں دشمنان بلوچ کی جانب سے شاطر و مکار منصوبہ سازوں نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کر اندرونی طور ہمیں سخت مشکل حالات میں ڈال رکھا ہے۔ جس سے نکلنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
اور یہ آپسی خلیج روز بروز قومی ہدف سے دور دشمن کے اہداف کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے، اور اس خلیج نے بلوچ قومی تحریک آزادی کو داخلی و خارجی سطح پر سخت پیچیدگیوں کا شکار بنا کے رکھا ہے۔
موجودہ حالات میں ہمارا خطہ عملی طور پر جنگی حالات سے دوچار ہے، بلوچ کی قومی مزاحمتی تحریک، پشتون قوم کی پاپولر سیاسی تحریک، سندھ میں سندھیوں کی قوم پرستی کی جانب کروٹ، کردوں کا ایران، عراق، ترکی اور شام کے خلاف مسلح مزاحمت یہ وہ حقیقتیں ہیں کہ اس خطے کی غیر فطری سرحداتی ترتیب کو یکسر تبدیل کرنے پر منتج ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں بالآخر غیر فطری استبدادی ریاستیں دفاعی پوزیشن پر آگئی ہیں۔
استبدادی قوتوں نے مذہب کو بنیاد بنا کر کمزور اور مظلوم و محکوم اقوام کی زمینوں پر جو بزور طاقت غیر فطری ریاستیں قائم کی ہیں انکو دوام بخشنے کیلئے محکوم اقوام کی تاریخ کلچر اور قومی شناخت کو ختم کرنے کی غرض سے استبدادی نظام قائم کیا ہے جسے محکوم اقوام نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔
مذہبی جذبات کے استحصال کے خلاف خالص قومی نظریات کی بنیاد پر بلوچ، کرد، پشتون، سندھی اور احوازی عرب و دوسرے اقوام قومی جبر کے خلاف نجات حاصل کرنے کی جہد کر رہے ہیں، جس سے استبدادی قوتوں کے قلعے زمین بوس ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
پشتون،سندھی، کرد اور احوازی عرب اقوام بلوچ قوم کے فطری اتحادی ہیں۔ یہ تمام اقوام قومی سیاست اور قومی نجات کے نظریاتی بنیادوں پر متحدہ ہوکر اپنی قومی آزادی کو یقینی طور پر بحال کرسکتے ہیں جو کہ اپنے قومی مصائب ومظالم کو کم کرسکتے ہیں۔
محکوم اقوام کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اسٹریٹجک فیصلوں کی بنیاد پر نئی عالمی صف بندیوں کے تناظر میں اپنے قومی مفاد کو ان کے مفادات سے مطابقت پیدا کرنے کی پالیسی بنا کر درست فیصلے کرکے اپنی قومی وجود کو منوانے کی کوشش کریں۔
جیسے کہ مشکل کی اس گھڑی میں بلوچ وطن دوست آزادی پسند پارٹی فری بلوچستان مومنٹ نے اپنے وقت و حالات کے مطابق اصولی موقف اور مستقل پالیسی کے تحت پشتون عوام کی سیاسی و اخلاقی حمایت کا اعلان کیا جو کہ بلوچ دشمن پنجابی و پاکستان کے مقتدر حلقوں پر یقیناً ناگوار گزرے گا۔
بلوچ آزادی کی تحریک نسبتاً ایک پرانی تحریک ہے، اسکی کمزوریاں ہمیشہ اندرونی معاملات رہی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی سپورٹ نہیں مل رہی یعنی بیرونی سپورٹ اس بات پر مشروط ہے کہ تحریک قومی تشکیل کی بنیاد پر ہو جہاں تحریک کی صف بندی پارٹی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک مظبوط قومی کونسل تشکیل دیا جائے جس میں تمام آزادی پسند اسٹیک ہولڈرز اپنا فعال کردار ادا کرسکیں۔
ہماری تحریک خطے کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اس وقت اٹھا سکتی ہے جب ہم ہماری تحریک کی تشکیل قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریاست کی نعم البدل کے طور پر متعارف ہو۔