واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں فضائی حملے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے طالبان سے بات چیت کی ضرورت نہیں ہے۔
جمعہ کے زور ہونے والے نیوز کانفرنس میں جان کربی کا مزید کہتا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ہمیں مستقبل میں اس طرح کے آپریشن کرنے کے لیے کسی گروپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔
جمعہ کو اس نیوز کانفرنس میں پینٹاگون کے ترجمان جان کربی سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان امریکی فوجی آپریشن سے آگاہ ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ امریکی ڈرون یا دیگر طیاروں کو مار گرایا جائے۔
مسٹر کربی نے جواب میں کہا اس طرح کی کارروائیوں میں عملے کی حفاظت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔
امریکہ پہلے ہی اس طرح کی کارروائیاں شروع کر چکا ہے اور گزشتہ ماہ کابل اور ننگرہار میں ڈرون بھی حملے کیے ہیں ـ
لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک معصوم خاندان کے 10 افراد جن میں چار بچے بھی شامل تھے اس حملے میں مارے گئے تھے۔
جان کربی نے نیوز کانفرنس میں اعتراف کیا کہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی حملوں پر پاکستان کے ساتھ بات چیت بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا ہم پاکستان سے خطے میں موجود خطرات کے بارے میں بات کر رہے ہیں خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر خطرات کے بارے میں۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہاں بہت زیادہ تفصیلات شیئر کرنا ضروری ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی حکام نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کے بعد وہ علاقے کے کسی دوسرے ملک میں فوجی اڈے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے کبھی نہیں دیں گے۔ لیکن جب پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی بات آتی ہے تو امریکی اور پاکستانی حکام کی طرف سے ردعمل ہمیشہ خاموش رہا ہے ـ
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو گزشتہ 20 سالوں سے افغانستان کی جنگ کے دوران ہمیشہ پاکستان کی فضائی حدود کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس نیوز کانفرنس کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے سیکریٹری بلال کریمی نے کہا کہ ہم امریکہ کے اس کی پوزیشن کو قبول نہیں کرتے ہم اس کی مذمت کریں گے اور اسے روکنے کے طریقے بھی تلاش کیے گئے ہیں ۔ اور اسے ایک جارحیت سمجھا جائے گا ۔ یہ حملے نہ پچھلے 20 سالوں میں کارآمد ثابت ہوئے اور نہ اب کام ہوں گے ۔
واضح رہے امریکہ نے گزشتہ ماہ افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی کہا تھا کہ وہ قطر میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے گا ۔