Homeخبریںروس اور مغرب کے مابین تناؤ، ’غیرمتوقع جھڑپ‘ کا خطرہ

روس اور مغرب کے مابین تناؤ، ’غیرمتوقع جھڑپ‘ کا خطرہ

ہمگام نیوز۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ روس اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی ایسی ’ غیر متوقع جھڑپ‘ کا باعث بن سکتی ہے، جو دراصل دونوں جوہری طاقتیں ہی نہیں چاہتی ہیں۔

امریکا کی طرف سے مشرقی یورپ اور بالٹک کی ریاستوں میں بھاری عسکری سازوسامان روانہ کرنے کے اعلان کے چند روز بعد ہی روس نے کہا کہ وہ بھی اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے چالیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائل فوج کے سپرد کرے گا۔ روس اور یورپ کی طرف سے ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیوں میں یہ ایک تازہ ترین پیشرفت ہے۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ روس اور مغرب دونوں ہی اسلحے کی ایک ایسی نئی دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں، جو سرد جنگ کے زمانے میں دیکھی گئی تھی۔ تاہم ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس کشیدگی کے باعث غیر متوقع طور پر اچانک لڑائی کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

یورپی کونسل برائے خارجہ امور سے وابستہ ’قدری لِیک‘ کہتی ہیں، ’’میرے خیال میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کی نیتوں کو پڑھنے میں غلطی دیکھی جا رہی ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالخصوص ماسکو حکومت مغربی ممالک پر زیادہ شکوک رکھتا ہے۔ روسی امور کی ماہر ’قدری لِیک‘ کے بقول، ’’ایسا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ روس کسی ایسے حملے کے خلاف بھی جوابی کارروائی کر سکتا ہے، جو صرف اس کی ذہنی اختراع ہو۔ ماسکو حکومت خیالی حملے کا حقیقی دنیا میں جواب دے سکتا ہے۔‘‘

’جنگ کی صورت میں سنگین نتائج‘

’قدری لِیک‘ ایسے ماہرین میں شامل ہیں، جو کسی ممکنہ حادثاتی تنازعے کے سدباب کے لیے روس اور یورپی اتحادی ممالک کی فوجی کمانوں کے مابین ایک براہ راست رابطے پر زور دیتے ہیں تاکہ کسی غلط فہمی کو پیدا ہونے سے قبل ہی اسے ختم کر لیا جائے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس کی طرف سے کریمیا کو اپنا حصہ بنانے اور مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی حمایت کرنے کے نتیجے میں مغرب اور روس کے مابین تعلقات سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔

واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے منسلک جیفری مینکوف نے مشرقی یوکرائن کے تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور یورپی ممالک کے مابین تناؤ اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ حادثات اور غلط فہمیوں کے امکانات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، ’’لیکن میرا خیال نہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی لڑائی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اگر کوئی جنگی مہم شروع ہوئی تو دونوں کے پاس ہی جوہری ہتھیار ہیں۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ لڑائی کی صورت میں نتائج انتہائی سنگین ثابت ہوں گے۔‘‘

دوسری طرف کچھ ماہرین کے مطابق روس کے تناظر میں ایسے علاقوں میں مغربی مداخلت کوئی مناسب اقدام نہیں، جو سابقہ سوویت یونین کے حصے تھے۔ روس میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ یوکرائن کے کریملن نواز سابق یوکرائنی صدر کے خلاف شروع ہونے والے عوامی مظاہروں میں مغرب نے بھی کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں وکٹور یانوکووچ کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔

’فوجی کارروائی نہ کرنا مغرب کی غلطی‘

ایجنسی فار پولیٹیکل اینڈ اکنامک کمیونیکیشنز کے روس نواز ڈائریکٹر دمتری اورلوف کے مطابق مشرقی یورپ کے لیے امریکا کی طرف سے بھاری فوجی سازوسامان روانہ کرنے کے جواب میں روسی فوجی کمک میں چالیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو شامل کرنے کا اعلان منطقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو حکومت کو امریکا کی طرف سے لاحق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہے لیکن وہ جنگ کی تیاری میں نہیں ہے۔

تھنک ٹینک ’رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ‘ سے منسلک محقق ایگور سوتایجن کا البتہ کہنا ہے کہ روسی اقدامات کے باوجود مغرب کی طرف سے یوکرائن میں فوجی کارروائی نہ کرنے کے باعث ماسکو حکومت کو شہ ملی ہے، ’’وہ (روسی) بہتے پانی کے مانند ہیں۔ اگر انہیں کھلا راستہ ملے گا تو وہ آگے بڑھتے جائیں گا اور اگر ان سامنے کنکریٹ ہو گا تو وہ وہیں ٹھہر جائیں گے۔‘‘

ایگور سوتایجن نے یہ بھی کہا کہ روس کی طرف سے گزشتہ برس بھی اڑتیس نئے بین البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو فوج کے حوالے کیا گیا تھا اور اس تناظر میں رواں برس ایسے نئے مزید چالیس میزائلوں کا اعلان کوئی انوکھی بات نہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ روسی صدر پوٹن جلد ہی بہّتر البراعظمی بیلیسٹک میزائلوں کو ریٹائر بھی کرنے والے ہیں۔

Exit mobile version