بیروت ( ہمگام نیوز )مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق اعلانات کی روشنی میں انکشاف ہوا ہے کہ ترک صدر ایردوآٰن کی شامی صدر بشار الاسد کے درمیان ملاقات کے انعقاد کیلئے روس نے اقدام کیا ہے۔ دس سال قبل شام میں جنگ شروع ہونے سے اب تک ایردوآن اور بشار الاسد میں تلخ دشمنی چل رہی ہے اور اس کے اثرات اب تک جاری ہیں۔
ایک سفارتی ذریعے نے اطلاع دی ہے کہ ماسکو درحقیقت دونوں فریقوں کے درمیان “مفاہمت” کے بہانے ایک میٹنگ منعقد کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر شام میں ترکیہ کی زمینی فوجی کارروائی سے بچا جا سکے ۔ انقرہ کچھ عرصہ سے اس کارروائی کی دھمکی دے رہا ہے اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کارروائی قریب آگئی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے ایک بیان میں ذریعے نے کہا کہ اس ملاقات کے لیے روس کی کوششیں شمال میں فوجی آپریشن کی سنجیدگی کے متعلق ترکیہ کے یقین کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ ایسا کوئی آپریشن علاقائی اور بین الاقوامی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
ذریعہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دمشق اور ماسکو کے درمیان رابطے کی لائنیں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ قبل شام کے نائب وزیر خارجہ بشار الجعفری کی روس میں نئے سفیر کے طور پر تقرری کے بعد سے تیز ہو گئی ہیں۔ ان رابطوں کا مقصد بھی ترکوں کو شمالی شام میں آپریشن سے روکنا ہے۔
نئی بات یہ ہے کہ ماخذ نے ایک پوشیدہ ایرانی کردار کے دباؤ کی طرف اشارہ کیا جس میں بشار الاسد کو روسی دباؤ کے خلاف جانے پر کیا گیا۔ ذریعہ نے بتایا کہ شام کو اس ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے جب کہ تہران کو خدشہ ہے کہ ماسکو کی شام میں اسد اور ایردوآن کے درمیان معاہدہ کرنے میں کامیابی سے اس کے مفادات پر منفی اثر پڑے گا۔
روس، ترکیہ اور شامی حکومت کے درمیان بعض معاہدوں یا مفاہمتوں کے نتائج سے تہران خوفزدہ ہے کیونکہ ان معاہدوں سے اس کے مفادات پر زد پڑ رہی ہے۔
متبادل راستہ
اسی تناظر میں قومی سلامتی کے امور اور ایرانی مطالعات کے ماہر ڈاکٹر فراس الیاس نے کہا ہے کہ تہران شمالی عراق اور شام میں اپنے اثر و رسوخ پر اس کارروائی کو انجام دینے کے خطرات سے آگاہ ہے۔ جس کی وجہ سے اسے پی کے کے اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ واضح فوجی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ تاکہ بحیرہ ابیض تک رسائی کو محفوظ بنایا جا سکے، اس سے قبل ایران اس نے مسلسل اسرائیلی اور امریکی حملوں کی وجہ سے عراق شام کی سرحد کے پار اپنی سرگرمیاں روک دی تھیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تہران “متبادل راہداری” کے تحفظ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے جو عراق اور شام کی شمالی پٹی کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور اسی لیے اس نے کرد گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو منشیات کی تجارت، سمگلنگ کی کارروائیوں اور دیگر طریقوں سے مضبوط کیا ہے۔
انھوں نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ترکی کو اس فوجی آپریشن کے کرنے یا نہ کرنے کے امکانات کے حوالے سے بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ ایک محدود آپریشن ہو گا جس کے اہداف ایک مخصوص وقت تک کیلئے محدود ہیں۔ یہ ایسا آپریشن نہیں ہوگا جس سے روس، امریکہ، یا حتیٰ کہ ایران کے غصے کو بڑھکایا جائے۔ ترکیہ عراق اور شام میں کرد گروہوں کو نکالنے کیلئے فضائی کارروائیوں اور فضائی بمباری کے طریقہ کار بھی جاری رکھ سکتا ہے،ان فضائی حملوں کا مقصد بھی معاشی اور اقتصادی شعبوں کی قیادتوں اور تجارتی سرگرمیوں کے مراکز کو نشانہ بنانا ہوگا۔
انہوں نے زور دیا کہ ترکی کی فوجی تیاریوں کے باوجود شمالی عراق میں ترک فوجی آپریشن کے انعقاد کو ترک فوج کی طرف سے ابھی تک حتمی درجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اس کے ساتھ اس حوالے سے سیاسی فیصلہ بھی موجود ہے ۔ یہ فیصلہ سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل نے گزشتہ ہفتے انقرہ کے اجلاس میں پیش کیا تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ترکیہ کا مقصد روسی اور امریکی فریقوں کے ساتھ پیشگی ہم آہنگی کے بغیر کوئی آپریشن شروع کرنے کا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو اس سے انقرہ اور دمشق کے درمیان صورتحال کو بہتر بنانے کی سطح پر روس کی کوششوں پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ شمالی شام کے علاقوں میں سلامتی کے ماحول کی سطح اور اس کا امکان شمالی عراق کی صورت حال تک پھیلا ہوا ہے۔ کرد مسلح گروہوں کا عراقی اور شامی اطراف میں ایک نامیاتی اور سیاسی رشتہ ہے۔
کشیدہ تعلقات
واضح رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآٰن اور شامی حکومت کے صدر بشار الاسد کے درمیان تعلقات 2011 میں شام میں تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے کشیدہ ہیں۔ اس وقت ایردوآن کی حکومت نے حزب اختلاف کے ان جنگجوؤں کی حمایت کا اعلان کیا تھا جنہوں نے شامی حکومت کے خلاف جنگ شروع کرنے کی کوشش کی۔
شام نے ترک پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا کہ وہ جنگجوؤں کے ایک گروپ کی مدد کر رہا ہے۔