کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے سابق چئیرمین زاہد بلوچ کی طویل گمشدگی کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں پر امن سیاسی جدوجہد کو دبانے کے لئے ریاست اپنی پوری مشینری کو بھرپور طریقے سے استعمال کررہی ہیں۔سیاسی لیڈران اور کارکنوں کی جبری گمشدگی اور انکے ماورائے عدالت قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست بلوچ قومی جدوجہد سے خائف نظر آتی ہیں اس لئے طاقت کے زور پر پرامن سیاسی جدوجہد کو کچلنے کے لئے بلوچ طالب علموں سمیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریکیں طاقت کے زور پر دبائے نہیں جاسکتے بلکہ مذید توانائی اختیار کرتے ہوئے اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہیں۔
زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو پانچ سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن ان کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا نہ ہی انکو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیاہے اور نہ ہی خاندان اور تنظیم کو زاہد بلوچ کی خیریت حوالے سے کوئی خبر دی گئی ہیں جو صریحاً انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ چیرمین زاہد بلوچ ایک پرامن سیاسی جدوجہد کے حامی تھے جنہوں نے بلوچ قومی غلامی کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی کی اور ہمیشہ بلوچ طالب علموں کو پر امن سیاسی جدوجہد کا درس دیتے رہے لیکن پر امن سیاسی جدوجہد سے خائف ریاست نے زاہد بلوچ کو 18 مارچ 2014 کو تنظیم کے سابقہ چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ اور دیگر ذمہ داران کے سامنے سے کوئٹہ سے جبری اغوا کردیا گیا ۔جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں۔
زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تنظیم نے مقامی اور عالمی سطح پر کئی منظم احتجاج کیئے۔ ریلی، مظاہرے ،پریس کانفرنس کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جدوجہد کی۔ تنظیم کے سابقہ مرکزی کمیٹی ممبر لطیف جوہر بلوچ کو کراچی میں تادم بھوک ہڑتالی کیمپ میں بٹھایا گیا اور دیگر آزادی پسند تنظیموں کی مدد سے عالمی سطح پر بھرپور احتجاج کی گئی، لیکن کوئی خاص نتیجہ بر آمد نہ ہوسکا جو انسانی حقوق کے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔
بی ایس او آزاد جیسے پر امن طلبہ تنظیم پر پابندی اور طالب علم لیڈروں سمیت کارکنان پر ریاستی کریک ڈاؤن بلوچستان میں بلوچ طلباء سیاست پر قدغن لگانے کا واضح ثبوت ہے جس پر عالمی اداروں کی پر اسرار خاموشی ایک معمہ ہے جس کا حل ہونا انسانیت کی بقاء اور دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف ایک واضح موقف اپنا کر ریاست پر دباؤ ڈالیں اور بلوچ سیاسی اسیران کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے جبکہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو پانچ سال مکمل ہونے پر تنظیم کی جانب سے لندن اور جرمنی میں آگاہی مہم چلا کر جنوبی کوریا زون کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا جائیگا۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کے لئے اس دن کی مناسبت سے سوشل میڈیا میں مہم بھی چلائی جائیگی جس میں تمام بلوچ سیاسی پارٹیوں ، تنظیموں ،انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سے اپیل کی جاتی ہیں کہ وہ اس آگاہی مہم میں بھرپور شرکت کرکے انسان دوستی کا ثبوت دیں ۔