زبوں حال پاکستانی معیشت اور ناکام داخلہ و خارجہ پالیسیز
ہمگام اداریہ
پاکستانی میڈیا ایکسپریس ٹرائیبون نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہوچکی ہے، ورلڈ بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگلے سال پاکستان کی معیشت بہت سست رفتاری کا شکار رہے گا۔ پاکستان کے فنانس سیکرٹری عارف احمد خان نے نگراں وزیرآعظم کو تجویز دی ہے کہ آئی ایم ایف کے دفتر کا ایک اور چکر لگایا جائے تاکہ قریب المرگ اور دیوالیہ کی حالت میں بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کی معیشت کو بحران سے نکال سکے۔
اخبار کے مطابق تین دنوں میں فنانس منسٹری نے نگراں وزیر آعظم کو دو دفعہ زبوں حال معیشت کی صورتحال کے بارے بریفنگ دی ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بیرونی بینک اکاؤنٹ کی حالت بہت بری طرح سے خراب ہے، سرکاری زرمبادلہ کے زخائر سکڑ کر 10 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، موجودہ اکاؤنٹ خسارہ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے یہ زخائر بھی ختم ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
اس صورتحال سے نکلنے کیلیے یہ امکان بڑھ چکی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کی طرف ہاتھ پھیلائے لیکن اس بار آئی ایم ایف سے قرضہ لینا اتنا آسان نہیں جتنا پاکستانی حکمران امریکی حکومت کے حمایت میں آسانی سے سمجھ لیتے تھے کیونکہ اس دفعہ اس مہینے یعنی جون میں Financial Action Task Force پاکستان کو گرے لسٹ Grey list میں ڈال رہا ہے۔ FATFکی اس گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کیلئے ممکن نہیں کہ وہ IMFکی شرائط پورہ کرسکے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ خود امریکہ نے دہشتگردی کی خلاف تعاون نہ کرنے اور افغانستان میں طالبان و حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کرنے پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا بنیادی وجہ دھشتگردی کی سرپرستی اور مالی معاون کرنا اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی شمالی کوریا لیبیا اور ایران کو فراہمی کرنا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ اب یہ بھی ڈر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اسلحے کہیں جنونی مذہبی دھشتگردوں کے ہا تھ نہ لگ جائیں۔ کیونکہ پاکستان اندرونی طور پر اب ایک کوکھلا ملک بن چکا ہے۔
پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنا امریکی کی طرف سے یک طرفہ دباؤ ڈالنے کی غرض سے نہیں بلکہ اس میں دنیا کے بڑے قوتوں کا متفقہ فیصلہ بھی شامل ہے، اور اس پہ طرفہ تماشہ یہ کہ چین اور سعودی عرب نے بھی امریکہ اور یورپ کی اس اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ ایک طرف سی پیک پروجیکٹ سے وابستہ چائنا سے لیئے ہوئے قرضوں کی بڑھتی ہوئی ادائیگی اور دوسری طرف بین الاقوامی مالی شرائط اور پابندیاں پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔
گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادیوں کا اگلا قدم یہ ہوگا کہ آئی ایم ایف اور والڈ بنک کو قائل کریں کہ تاکہ سخت شرائط کے بنیاد پر پاکستان کو قرضہ دیں یا سرے سے قرضہ دینا بند کردیں۔ اس سیناریو کے بعد انڈیا کا بھی ایک بڑا کردارشروع جائے ہوگا۔ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کو لیکر انڈیا بھی اپنی بات منوانے کیلئے سرتوڑ کوشش کرے کہ پاکستان رسمی طور پر کشمیر مسئلہ سے دستبردار ہوجائے۔ اگر پاکستان نے عالمی قوتوں کے شرائط مان نہیں لیے تو پاکستان یکے بعد دیگرے گرے لسٹ کے بعد بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ اگر پاکستان نے انکے شرائط مان بھی لئے تو بھی پاکستان کے اپنی ایٹمی زخائر کا مزہبی جہادی قوتوں کے ہاتھ لگنے کی احتمال اور اس خطرے کے پیش نظر دنیا کو جواب دہی دینا ہوگا۔
وانا میں حالیہ گڈ طالبان ، نامنہاد امن فورس ، لشکر اسلام پاکستان آرمی کی مشترکہ دہشت گردی نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اس خطے میں دہشگردی کے پیچھے پاکستانی ریاست کارفرماں ہے۔ جب تک پاکستان ریاستی سطح پر دہشت گردی کرتا رہے گا، اس وقت تک گرے لسٹ پاکستان کیلےبیرونی امداد ناممکن بناتا رہے گا۔ پشتون قوم پرستی کا خطرہ پاکستان کیلئےافغانستان اس کی خارجہ پالیسی کا مستقل بدی کا محور بن چکا ہے۔ پاکستانی ملٹری اسٹیبلمشنٹ نہ چاہتے ہوئے بھی پشتون اور بلوچ قوم پرستی کی وجہ سے خاص کر افغانستان سے اپنا دشمنی ختم کرنے کا سوچھ بھی نہیں سکتا بحالت مجبوری شاید پاکستان کشمیر سے اپنا ہاتھ کیھنچ سکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں، کیونکہ ایک پرامن افغانستان پاکستان کیلئے موت کا سامان ہوگا۔ افغان جہاد کے دوران جنرل ضیاالحق نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ”افغانستان کو گرم پانی میں ہمیشہ ایک خاص درجے پر ابلنا چاہیے“۔
پاکستان کی تمام اداروں پر پنجابی ملٹری کی اجارہ داری، میڈیا پر پابندی، نظام عدل کے اداروں کو کنٹرول کرنا، جمہوری قوتوں کو بلیک میلنگ کے زریعے زیر کرنا، بلوچ ، پشتون اور سندھیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا، چائنا کو سی پیک کی شکل میں اس خطے پر مسلط کرنا، مذہبی دہشت گرد قوتوں کی ترویج اور انکی مالی اور فوجی سرپرستی کرنا ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی تضادات ناقابل یقین حد تک بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچ تو پہلے ہی گزشتہ اٹھارہ سالوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، پشتون، سندھی بھی پنجابی کی اجارہ داری کی گھٹن سے بیزار ہوکر مزاحمت پر اترچکے ہیں۔ بندوق بردار پنجابی جنرلوں کی بدمعاشی نے پاکستان کے اندرونی حالات کو ایک آتش فشاں بنا ڈالا ہے۔ایسے حالات میں وقت کا تقاضہ یے کہ قابض پاکستان کے زیر دست تمام غلام قوموں کو اپنی قومی آزادی کی تحریک کو مزید توانا و متحرک بنانے کی ضرورت ہیں۔