Homeآرٹیکلزسازشی لوگ تحریر : مہراب مہر

سازشی لوگ تحریر : مہراب مہر

معاشرتی نظام میں ہر دور میں وقت و حالات کے ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے اور معاشرہ کے تمام ادارے سیاسی سماجی حوالے سے تبدیلی کے مراحل سے گذرے ہیں اور بلوچ سماج میں اسی سوچ کو لیکر آزادی کے لیے جد و جہد کی تاریخ کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گذرچکا ہے، لیکن کامیابی کے ساتھ ناکامی کے آثار ہر دور میں نمودار ہوتے رہے ہیں اور ہر دور میں ناکامی کے وجوہات مختلف رہے ہیں لیکن کسی حدتک ان میں یکسانیت پائی جاتی رہی ہے 1948 میں جو جد وجہد شروع کی گئی اس وقت پختہ و منظم اداروں کے ساتھ جہد شروع نہیں کی گئی، بلکہ ردعمل کے طور پر کچھ قبائلی لوگ میدان جنگ کا حصہ بنے لیکن وہ سیاسی حوالے سے اتنے پختہ نہیں تھے کہ وہ آزادی کے سوچ کو لیکر آگے بڑھتے بلکہ حالات کے دباؤ نے کچھ وقت میں ان پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردئیے اور جلد ہی وہ تحریک بھی آہستہ آہستہ پہاڑوں سے سرینڈر تک پہنچ گیا ۔اور یہی سلسلہ بابو شیرو کے دورمیں رہا لیکن اس وقت بھی سیاسی اپروچ سے زیادہ قبائلیت کی چاپ زیادہ رہی اور اسکے بعد بڑی تیزی کے ساتھ نیپ کے دور حکومت میں حیدر آباد سازش کے بعد بھی آزادی کی جہد میں تیزی آئی، اور اس دوران بھی حالات وہی رہے لیکن اس دفعہ کسی حد تک سیاسی زانت پہلے سے زیادہ رہی اور کچھ حد تک بابو نوروز آغاعبدالکریم کی جہد سے زیادہ منظم رہی لیکن یہاں بھی قبائلی سوچ قومی سوچ پر حاوی رہی اور ساتھ ساتھ منافقین و مفاد پرست و موقع پرست ٹولے کا بول بالا رہا ۔ اور جہد سوشلزم و قومی آزادی کے بیچ لڑکتا رہا کبھی سرمایہ دار کے خلاف آواز اٹھتا رہا تو کبھی سرداروں کو سامراج کہا گیا اور قومی جہد اپنے اصل منزل سے ہٹ کر سوشلزم کے پیچھے پڑھتا رہااور نتیجہ کچھ خاطر خواہ نہ رہے اوراسی طرح موجودہ جہد آزادی پر نظر ڈالیں، تو ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہوگی، کہ موجودہ تحریک میں منافقین و ففتھ کالمسٹوں کی کمی نہیں۔ جو کہ ماضی کی جہد آزادی سے ذرا مختلف شکل میں موجود ہیں۔اگر براہمدغ بگٹی جاوید منگل نورالدین منگل ڈاکٹر اللہ نظر و حیر بیار مری کی جہد پر نظر دوڑائی جائے، توجاوید و نورالدین مینگل بی این پی مینگل سے منسلک ہیں اور براہمدغ بگٹی اپنے دادا کی شہادت کے بعد اپنے چار تنظیموں کا والی و وارث بنا بیٹھا ہے اور ڈاکٹر اللہ نظر بھی اپنے لیے چار تنظیمیں بنانے میں کامیاب ہوا تاکہ اپنی گروہی ساخت کو دوسروں سے علیحدہ رکھ سکے۔اور قریبا بیس سالہ جہد میں حیر بیار مری وہی پر کھڑا ہے جہاں سے انھوں نے جہد شروع کی تھی اور آج تک اسی منظم انداز میں ایک قومی پروگرام کو آگے لے جارہا ہے نہ انھوں نے مسلح و غیر مسلح محاذ کو ایک ساتھ کرنے کی کوشش کی، نہ کہ شوق لیڈری میں جہد کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی، اور نہ ہی گروہی شناخت کے لیے یدگر سیاسی اداروں کو اپنے زیر دست لانے کی کوشش کی۔جبکہ دیگر وقت و حالات کے ساتھ پلٹہ مارتے رہے اور جہاں سے ان کی شوق لیڈری پوری ہو رہی تھی انھوں نے کی اور کسی بھی قومی پروگرام کو گروہی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہیں، شہدائے بلوچ کی مناسبت سے ہو یا کہ چارٹر ہو یا کہ اتحاد و یکجہتی ہو، سب پر ڈاکٹر اللہ نظر و براہمدغ بگٹی یکے بعد دیگرے وار کرتے رہے اور جہد کو قومی دہارے سے گروہیت کے سطح تک پہنچانے میں کسی حد تک کامیائی حاصل کر لیے،کافی عرصے سے ڈاکٹر اللہ نظر پر مکران میں معصوم بلوچوں کی قتل پر سوالات اٹھ چکے تھے اور منشیات کے حوالے سے بھی ان پر کئی بار الزام لگ چکا تھا اور دیگر تنظیموں میں مداخلت اور اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کا الزام ان پر مولابخش دشتی کے قتل کے وقت لگ چکا تھا، کہ ڈاکٹر اللہ نظر نے مولا بخش دشتی کو اس بنیاد پر قتل کروایا، کہ مولا بخش دشتی نے انھیں ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے انھی کافی معلومات دی تھی، اور ان کے ان معلومات سے ڈاکٹر اللہ نظر استفادہ کرتے رہے ، لیکن مولا بخش دشتی کو قتل کرنے کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر اپنے ورکروں کو یہ کہتے ہوئے قتل کرنے پر آمادہ کر لیا تھا، کہ یہ آئی ایس آئی کے لیے کام کرتا ہے اور اسے ایسے معلومات بغیر آئی ایس آئی کے کارندے کسی کو نہیں مل سکتے، اس لیے اسے قتل کرنا ضروری ہے اور اس سے پہلے مولا بخش دشتی کے معلومات سے استفادہ کرتے رہے ہیں، جس طرح آجکل اسداللہ بلوچ و علی حیدر محمد حسنی سے ان کے تعلقات استوار ہیں،لیکن مولا بحش کے قتل کے بعد اس سے انکار از خود سوال بن گیا، اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ ہر ایک سیاسی ورکر سرمچاروں پر پختہ یقین تھا آپ سمجھ لیں کہ سرمچاروں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قرآنی آیات کا درجہ رکھتے تھے اور اس وقت کسی کی سیاسی بدنیتی و بدعملی و منافقت کا کسی کو اندازہ نہیں تھا، کہ ایک ہمدرد جو کسی تنظیم کو ریاستی اداروں کے پالیسیوں بارے میں معلومات دیتا ہے وہ آپ کا دوست نہیں دشمن ظاہر کیا گیا، خیر اس کاجواب ڈاکٹر اللہ کو ضرور دینا ہوگا، کہ مولابخش دشتی ایک ہمدرد کی حیثیت سے آپ کو معلومات دیتا تھا یا ایک دشمن کی حیثیت سے ‘یہ تعلق جس بنیاد پر بنی تھی اور جس بنیاد پر ٹوٹا ضرور کھبی وہ پردے بھی اٹھ جائیں گے اور ڈاکٹر اللہ نظر کے یکے بعد دیگرے ایسے اعمال قوم کے سامنے آگئے جو کئی سالوں سے پوشیدہ تھے، چوری و ڈکیتی سے لیکر تریاق فروشی تک تمام اعمال قوم کے سامنے نہیں آئے تھے اور لوگ اندھی تقلید کرکے ڈاکٹر اللہ نظر کو مسیحا سمجھ بیٹھے تھے بھیڑ کی کال میں بھیڑیا اپنی چال چل رہا تھا، اور اب تنقیدی بحث کے بعد بہت سے ثبوت سامنے آئے ہیں جو کہ ڈاکٹر اللہ نظر و انکے دوستوں کی اصل سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں، اور رحمدل مری کی اغواء پر بی ایل ایف سیخ پا ہوا اور رحمدل جو کہ یوبی اے کے مرکزی بانیوں میں شمار ہوتا ہے بی ایل ایف کا سینٹرل کمان کا ممبر نکل آیا جس کا اظہار بی ایل ایف نے اپنے بیان میں کیا ہے ،اور یہی رحمدل مری یو بی اے کے سربراہ مہران مری کی نوابی کی حمایت کرتا ہے ،جبکہ بی ایل ایف مڈل کلاس کے نعرے کے ساتھ سرداروں کے خلاف کمر بستہ ہے اورحیر بیار مری سمیت براہمدغ بگٹی کے حوالے سے وہ اپنے محفلوں میں یہ کہتے نہیں تکتے کہ یہ سردار و نواب ہم غریبوں کو کبھی بھی آگے نہیں چھوڑیں گے، بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف متوسط طبقے کو کاونٹر کرنا ہے، لیکن اپنے سینٹرل کمانڈ کے ممبر رحمدل مری سے مہران مری کی خود ساختہ نوابی کے لیے بیان دلواتا ہے، تاکہ ایک ساتھ دو شکار کرسکے ایک طرف مری قبیلے کے وہ لوگ جو یوبی اے سے منسلک ہیں ان کی ہمدردی لینا ہے جبکہ دوسری طرف کوہستان میں اپنے لیے کوئی گروپ منظم کرکے حیر بیار مری کے خلاف استعمال کرنا ہے،رحمدل مرگیانی جو بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ کا بندہ ہے تو مہران مری کی نوابی کے لیے اسے بیان دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ نواب خیر بخش مری کی وفات کے بعد مری قبیلہ چنگیز مری کو نواب مقرر کرچکے تھے جو کہ نواب خیر بخش کا سب سے بڑا بیٹا ہے اور مری قبیلے اپنے قبائلی روایات کے تحت نوابی کا حق سردار چنگیز مری کو سمجھتے ہیں۔جبکہ مہران مری نواب خیر بخش مری کا سب سے چھوٹا لڑکا ہے ،اب اس تمام مرحلے میں مہران مری کی نوابی کے لیے جاوید مینگل سمیت براہمدغ بگٹی نے حمایت کی، اور مہران مری نے یوبی اے کے تمام ان سپاہیوں کے نام سے بیان جاری کروایا جو کہ اس وقت یوبی اے کے کیمپوں میں تھے یہاں تک کہ دو تین اشخاص جو کہ دیگر قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے ان سے بھی بیان دلوایا گیا اور رحمد ل مرگیانی بھی یوبی اے کے پلیٹ فارم سے مہران مری کو نواب تسلیم کرلیا تھا، یہاں
بات مہران کے نواب تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے زیادہ اس سوچ کی ہے کہ اگر رحمد ل یوبی اے کا بانی رہنما ہے تو وہ بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ کا ممبر کیسے بن گیا؟؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوبی اے کے بانی رہنما رحمدل مری کا بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ کا ممبر کیسے بن سکتا ہے؟؟ اگر بنا ہے تو ضرور اسکے پیچھے ایک بہت بڑی سازش کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ ویسے رحمدل مرگیانی کے ذریعے ڈاکٹر للہ نظر نے بی ایل اے کو تھوڑنے کی کوشش کی اور اس میں اسے کس حد تک کامیابی ملی اس کا فیصلہ بلوچ عوام ہی کرسکتا ہے،یوبی اے کے حوالے سے بی ایل اے کی پالیسی کی وضاحت ہوچکی تھی کہ یوبی اے کے لوگ تنظیمی اصولوں کی روگردانی کرکے جو کہ پہلے سے احتساب زدہ تھے اور یہی احتساب زدہ اشخاص نے یوبی اے بنا کر علاقے میں چوری ڈکیتی اور عوام کو تنگ کرنا شروع کردیا تھا اور ساتھ ساتھ بی ایل اے کے وسائل پر قبضہ کرکے انھیں غلط استعمال کر رہے تھے اس دوران انھیں کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن وہ باز نہیں آئے بلکہ یہاں تک کہ انھوں نے بی ایل اے کے سرمچاروں کے راستوں میں مائن کاری کرتے رہے کہ کسی نہ کسی طرح سے بی ایل اے کے سرمچاروں کو نقصان پہنچا سکے،اور یہی رحمدل مرگیانی جو کہ یوبی اے کے پلیٹ فارم سے یو بی اے کے بانی رہنماکی حیثیت سے احکامات دے رہے تھے اب یہی شخص بقول بی ایل ایف کے ان کے سینٹرل کمانڈ کا بندہ ہے جو کہ کافی عرصے سے بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہاہے، اب زرا آتے ہیں رحمدل مری کے اغواء کی نوعیت پر، رحمدل مرگیانی کو بلوچستان کے علاقے جالڑی سے اغواء کیا گیا یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر نواب خیر بخش مری کی کافی زمینیں ہیں جہاں رحمدل مری اپنے نئے نواب مہران مری کے کہنے پر ان زمینوں کو سنبھالنے اور سالانہ کشت و کشار کے حساب کتاب کے لیے آئے تھے جبکہ چنگیز مری جو کہ مری قبیلے کا پہلے سے نواب مقرر ہو چکا ہے اور زمینوں کے حوالے سے اس سے پہلے گزین مری کے ساتھ جنگ چڑھ چکی تھی، اب مہران مری کے اس نمائندے نے جالڑی میں ان زمینوں کی ملکیت کا دعوی کیا تو شک گزررہا ہے کہ اسے چنگیز مری نے اغواء کیا ہے،کیونکہ رحمدل مرگیانی نے ایک تو مہران مری کی نوابی کی حمایت کی ہے جس پر چنگیز مری نے ان سے بدلہ لینے کاتہہ کر چکا ہے اور بی ایل ایف نے بلا سوچے سمجھے الزام بی ایل اے کے سرمچاروں پر لگا دیا، اب بی ایل ایف ان سوالات کے جوابات دے کہ بی ایل ایف کے سینٹرل کمان کے بندے کا مہران مری کے نوابی سے کیا تعلق ہے؟؟ بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ کا یوبی اے کا بانی رہنما کس طرح ہو سکتا ہے۔ قصہ صاف اور واضح ہے ڈاکٹر اللہ نظر نے بی ایل اے کو ختم کرنے کے لیے عرصہ دراز سے اپنی سازشوں کا جال بُن رہاتھا ایک طرف بی ایل اے ان احتساب زدہ لوگوں کو اُکسا رہا تھا جو اس سے پہلے بی ایل اے کے مجرم ٹھہرے تھے جن میں کئی کو سزا ہو چکی تھی ان کو ڈاکٹر اللہ نظر نے اکھٹا کر کے قادر مری کی سربراہی میں ایک شکل دی اور یو بی اے کے نام سے انھیں منظر عام پر لے آیا اور وسائل پر ان معاہدہ آدھا آدھا کرنے پر ہوچکا تھا،اسی وجہ سے جب یوبی اے کے مسئلے کے حوالے سے بی ایل اے کے ساتھی ڈاکٹر اللہ نظر کو ثالثی کا کہہ رہے تھے اور انھوں نے ثالثی قبول کرلی، لیکن انھوں نے اس مسئلے کو ٹالتا رہا اور حالات کو مزید بگڑنے دیا،تاکہ اس دوران جو نقصان بی ایل اے کو ہوگا اس کا براہ راست فاہدہ بی ایل ایف کو ملے گا، اور ڈاکٹر اللہ نظر کو تین سالوں تک بی ایل اے اس مسئلے میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے کہتا رہا لیکن ڈاکٹر اللہ نظر ٹال مٹول سے کام لیتا رہا یہاں تک کہ جب یوبی اے کے لوگ بی ایل اے کے سرمچاروں کے راستوں میں تین دفعہ مائن کاری کرتے رہے جس سے ایک سرمچار زخمی بھی ہوا، اور ڈاکٹر اللہ نظر کو اسکی اطلاع
دی گئی تھی، لیکن پھر بھی وہ خاموش تماشائی بن کر اس مسئلے کا دور سے نظارہ کرتا رہا ، لیکن اس وقت بھی کوئی بھی ڈاکٹر اللہ نظر کے سازش کو نہ سمجھ سکا، لیکن رحمدل مرگیانی کے اغواء کے بعد تمام چیزیں ایک کے بعد ایک کر کے واضح ہو رہے ہیں کہ رحمدل ڈاکٹر اللہ نظر و قادر مری کے بیچ ایک پل کا کردار ادا کررہا تھا،رحمدل کو جس نے بھی اغواء کیا وہ کسی خاندانی دشمنی کی بنیاد پر اغواء ہوا یا چنگیز نے اسے اپنے زمینوں پر قبضہ کو روکنے کے لیے اغواء کیا یا وہ کسی اور وجہ سے اغواء ہوا۔ لیکن اس کے اغواء کے بعد اسکے رشتے اور ڈاکٹر اللہ نظر کی سازشوں کا جال ظاہر ہو گیا، کہ ڈاکٹر اللہ نظر اپنی اجارہ داری کے لیے کسی بھی تنظیم کو نقصان دینے کی آخری حد تک جا سکتا ہے،ماضی میں تحریک کو جو نقصان ہوا یا کامیابی نہ ملی تو اس وقت بھی ڈاکٹر اللہ نظر جیسے لوگوں کی کمی نہیں تھی اس وقت ہزار خان بجارانی نے جس انداز سے مری قبیلے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوا اور سیاسی محاذ میں متوسط طبقے کے نعرے اور سردار سامراج و سوشلزم جیسے نعرے لگے تھے یہ تمام گروہ اس وقت اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر یہ طبقے سامنے آئے تھے اور بالکل وہی سوچ بلوچ جہد آزادی میں دیکھنے کو مل رہی ہے،ڈاکٹر اللہ نظر نے متوسط طبقے کے نعرہ کو لیکر سوشلزم سے خود کو قریب کرتے نظر آتے ہیں لیکن مکمل اس کا اظہار اس وجہ سے نہیں کرتے کہ انھیں ڈر ہے کہ اس سے اسکی جد و جہد پر بیرونی منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ لیکن اپنے بغل بچہ پارٹی بی این ایم سے سوشلزم کی پرچار کا کام کروا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ماضی کے طرز سیاست کے تحت یہاں ڈاکٹر اللہ نظر بی ایل اے کو تھوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایک گروہ کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے،یہ وہی لوگ ہیں جو آزادی کا نام لیکر ریاست کے ففتھ کالمسٹ کے طور اپنا کام سرانجام دیتے ہیں اور تحریک کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گذار انھیں مزید کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔اور یہ سلسلہ ڈاکٹر اللہ نظر کی جانب سے رواں دواں ہے۔

Exit mobile version