کولمبو ( ہمگام نیوز) سری لنکا کی پارلیمان کے اسپیکر نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ صدر گوتابایاراجاپکشے آیندہ بدھ کو عہدہ چھوڑ دیں گے۔انھوں نے ایک دن کے پرتشدد مظاہروں کے بعد عوامی دباؤ کے سامنے ہتھیارڈالنے کا اعلان کیا ہے۔مظاہرین نے صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھااور کولمبو میں وزیر اعظم کے گھر کوآگ لگا دی۔
خود صدرراجاپکشے کی طرف سے فوری طور پرمستعفی ہونے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔پارلیمان کے اسپیکرمہندا یاپا ابی وردھنے نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’’راجاپکشے نے انھیں آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے دستبردارہوجائیں گے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’صدر نے 13جولائی کوعہدہ چھوڑنے کا فیصلہ اقتدارکی پرامن منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔اس لیے میں عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قانون کا احترام کریں اور امن کوبرقرار رکھیں۔
صدر کے عہدہ چھوڑنے کی خبر کے بعد کولمبو کے کچھ حصوں میں جشن کا سماں تھا اور لوگوں نے آتش بازی شروع کردی۔
قبل ازیں ہفتہ کی شام وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کل جماعتی حکومت کی تشکیل کے لیے راستہ ہموارکرنے کی غرض سے مستعفی ہونے کو تیار ہیں۔
دارالحکومت کولمبو میں بدترین ہنگاموں کے بعد پارلیمنٹ میں ان کے پارٹی رہنماؤں نے وزیراعظم اورصدردونوں سے عہدے چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔مشتعل مظاہرین نے سری لنکن صدر کی رہائش گاہ اور دفتر پر دھاوا بول دیا تھا۔
اس کےبعد وزیراعظم کے ترجمان ڈینوک کولمبیج نے کہا کہ وکرما سنگھے نے پارٹی رہنماؤں سے کہا ہے کہ جب تمام جماعتیں نئی حکومت کی تشکیل پر رضامند ہوجائیں گی تو وہ عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔
انھوں نے یہ فیصلہ سری لنکا میں ہونے والے سب سے بڑے احتجاج کے بعد کیا ہے۔دارالحکومت میں ہزاروں افراد رکاوٹیں توڑ کر صدرگوتابایا راجاپکشے کی رہائش گاہ اور قریبی دفتر میں داخل ہوگئے تھے تاکہ وہ ایک ایسے رہنما کے خلاف اپنے غیظ وغضب کا اظہار کرسکیں جسے وہ ملک کے بدترین معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔دن بھر فوجی اور پولیس اہلکار راجاپکشے سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے ہجوم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
دوکروڑ بیس لاکھ نفوس پر مشتمل جزیرہ نما سری لنکامیں گذشتہ کئی ہفتوں سے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اورمظاہرین صدر گوتابایا راجاپکشے اور ان کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم مہندا راجاپکشے کو ملکی معیشت کوتباہ کرنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔
اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پہلے ہی سابق وزیراعظم مہنداراجاپکشے کومستعفی ہونا پڑا تھا اور ان کی جگہ مئی میں رانیل وکرما سنگھے کو وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا لیکن ان سے بھی ملکی حالات قابو میں نہیں آئے اور مظاہرین نے ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ذمے دار حکومت کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔