ہمگام اداریہ
سویت یونین (موجودہ روس) نے چالیس سال قبل افغانستان پر اپنے مسلح لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ کردیا۔ جنگی جہاز، گڑگڑاتے ٹینک اور دیوہیکل توپ خانے افغانستان کی ہر گلی کوچے اور مختلف شہروں کے مرکزی شاہراوں کو چیرتے ہوئے افغان وطن کے کونے کونے میں پھیل گئے، چپے چپے پر روسی فوجیوں نے پیش قدمی کے لیے آگ و آہن برسانا شروع کردیا۔
جنگ شروع ہوتے ہی پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی ۔ پنجاب کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ ان کے مطابق اگر روس یوں ہی پیش قدمی کرتے ہوئے کندھار، ہلمند ، کنڑ اور دیگر بلوچ و پشتون علاقوں تک کامیابی کے ساتھ پہنچ گیا تو یہ پاکستان کے خاتمے پر منتج ہوسکتا ہے۔
آئی ایس آئی کے جرنیلوں نے اس متوقع طوفان کے آگے بند باندھنے کی غرض سے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ افغان لیڈرشپ اور جماعتوں کے اندر دراڑ ڈالنے کی غرض سے ہمدردانہ ہاتھ بڑھایا ، شمالی اتحاد کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی فوجی تربیت کا بلاناغہ اہتمام کیا۔ پاکستان کے پاس وقت کم مقابلہ سخت تھا دوسری طرف پنجابی جرنیلوں نے انتہائی چالاکی سے مذہب کو اپنے ریاستی مقاصد کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے استعمال کروا کے ایک بہت بڑے طبقے کو مائل کرلیا کہ روس کافر ہے اور افغانستان پر روسی چڑھائی سے عالم اسلام کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
روس چونکہ سپر پاور تھا، امریکہ نے سعودی شہنشاہوں اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستان جیسے دستیاب کرائے کے قاتل کو آسانی سے استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا دفاع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پاکستان جس نے یورپ سے ایٹمی ہتھیاروں کے پرزہ جات سینٹی فیوجز سمگل کئے تھے اسے اپنی ایٹمی عزائم کو متوقع قدغن سے بچانے کے لیے امریکہ کا مدد و نرم گوشہ چاہئے تھا اور دوسری طرف امریکی سی آئی اے کو بھی علم تھا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار کی دوڑ میں تیزی سے گامزن ہے۔ امریکہ کا پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے دینا شاید کم اہم تھا جبکہ سوشلسٹ روس کو شکست دینا زیادہ اہم تھا۔ امریکی خفیہ اداروں کو پاکستان کی خفیہ ایٹمی پلان کے بارے میں سو فیصد معلومات تھیں، لیکن انہوں نے پنجاب کو ایٹمی طاقت بننے اس لیے دیا کیونکہ پاکستان سرخ ریچھ کو دھکیلنے کیلئے مجاہدین کی میزبانی کے سارے فرائض نبھارہا تھا اور افغانستان کے اندر ایک طبقے کو مالی و فوجی مدد دینا واشنگٹن اور اسلام آباد کے کلیدی معاہدات کےتحت ہورہے تھے۔ امریکہ نے مجاہدین کو طیارہ شکن اسٹنگر میزائل فراہم کئے، افغان اور روسی فضائیہ کے طیارے مجاہدین کے اڈوں پر پرواز تو کرتے لیکن دوبارہ صحیح سلامت ائیرپورٹس تک نہ پہنچ پاتے۔ پاکستان و امریکہ کی جانب سے زمین سے فضا تک ہدف کو درست نشانہ بنانے کی فوجی طاقت نے مجاہدین کو فتوحات سے نوازا۔
یہ جنگ روس کے لیے اس لیے بھی بھیانک ثابت ہوئی کیونکہ پاکستان اور امریکہ نے اپنے پراکسی مجاہدین کے تمام تربیتی مراکز پشتون قبائلی علاقوں میں قائم کئے تھے اور ان کے جنگی رسد اور گزرگاہوں کی حفاظت پاکستانی فوج اور سی آئی اے خود کررہی تھی اور مالی کمک ومدد سعودی عرب اور دوسرے امریکی اتحادی کررہے تھے۔
روس نے بھی وہی غلطی کی جو غلطی آج سے اٹھارہ سال پہلے امریکہ و نیٹو نے افغانستان میں فوجیں اتارکر کرلیا تھا۔ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر جہازوں کے ذریعے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اس وقت کی طالبان حکومت کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، جسے طالبان نے آئی ایس آئی کی ایما پر امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا۔
پاکستان نے سویت یونین کے بکھرنے کے بعد کابل پر سن اسی کے اواخر میں بظاہر طالبان کو حکومت سونپی لیکن طالبان کے حکومتی فیصلے براہ راست جی ایچ کیو میں ترتیب دیئے جاتے تھے۔ اس کا ثبوت ہندوستان کے مسافر جہاز کے اغوا سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جسے اغوا کار ہائی جیک کرکے کندھار لے گئے جہاں آئی ایس آئی نے کشمیری شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کروایا۔ اس وقت کے ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے حکومت ہند کی طرف سے پاکستان نواز کشمیری شدت پسند مسعود اظہر کو رہاکروا کر تمام مسافروں کو چھڑوایا تھا۔ پاکستان نے افغانستان کو شروع دن سے آتش و آہن میں مصروف کرکے پنجاب کے مفادات کی تکمیل کی ہے۔ پاکستان کا روس کے خلاف مجاہدین اور چند ایک جہادی افغان پارٹیوں کو استعمال کرنے کا مقصد افغانستان کی سیاسی طاقت کو تقسیم کرکے رکھنا اور جمہوریت اور رائے حق دہی میں حصہ دار ہوکر افغانستان کے لیے کام کرنے کی جمہوری رجحان کو جڑ پکڑنے سے روکنا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں جمہوریت اور امن و سلامتی انتہائی کم رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔
اب ہم سویت یونین کی ٹھوٹ پوٹ ، پاکستان کا افغان عوام اور لیڈر شپ کو منقسم رکھنے کی پالیسی کا بلوچ قومی تحریک کے تناظر میں موازنہ کریں، تو کچھ یکساں پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ جب موجودہ تحریک شروع ہوئی تو اس میں پاکستان اور ایران کے لئے یکساں نفرت پائی جاتی تھی، بلوچ مفکر اور دنیا کی تحریکوں کا باریک بینی سے مشاہدہ رکھنے والے بلوچ دانشور پروفیسر شہید صبا دشتیاری صاحب ہوں یا بلوچ لیڈر بابامری، بلوچ نیشنل موومنٹ کے چئیرمین شہید غلام محمد بلوچ ہوں یا بی ایس او آزاد کی قیادت ہو یا پھر فری بلوچستان موومنٹ کے رہبر سب بلوچ پارٹیاں یک زبان ہوکر پاکستانی اور ایرانی قبضے کے خلاف کھل کر موقف رکھتے تھے۔ بلوچ پارٹیوں کا یکساں قومی بیانیہ اور عالمی طاقتوں کی اس خطے میں دلچسپی کو دیکھ کر ایرانی اداروں اور حکومت کے طوطے اڑ گئے۔ تہران کو بلوچ قومی یکجہتی سے خوف محسوس ہونے لگا۔ ایرانی گجر نے بلوچ قومی طاقت کو تقسیم کرنے کی غرض سے چند ایک مسلح تنظیموں کے اندر اپنے بکاؤ مال جیسے لوگ داخل کئے جنھوں نے ایران کے لیے نرم گوشہ بنانے کی بھر پور کوشش کی بالآخر ایران بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے اندر گھس کر بلوچ قومی طاقت کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور پھر جو لوگ ایران سے بلوچستان کی آزادی کے مطالبے کا ساتھ دیتے تھے انہوں نے تہران کی ڈگڈگی پر ناچنے کی حامی بھر لی، بلوچ قوم پر ظلم و زیادتی پر چپ کا روزہ رکھنے کی اس مجرمانہ غفلت کو حکمت عملی سے تعبیر کرنے لگے اور بلوچ سیاسی و عوامی حلقوں کی شدید لعن طعن اور تنقید سے بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
جس طرح پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی قومی طاقت کو منتشر رکھنے کے لیے مجاہدین، شوریٰ، طالبان تخلیق کئے اسی طرح ایران کے سپاہ پاسداران اور القدس نے بلوچ آزادی پسندوں کے مابین نااتفاقی پیدا کرکے چند ایک گروہ اور اشخاص کو بلوچ قومی بیانیہ اور بلوچستان کی تاریخی جغرافیہ کے مطالبے سے دور رکھنے کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔
جو لوگ تہران سے بلوچستان کی آزادی پر سمجھوتہ کرچکے ہیں ان کے ساتھ تہران وہی سلوک کریگا جس طرح پاکستان طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف ، ملا منان اور ملا منصور کے ساتھ کرچکا ہے، معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ لوگ ایران کے ہاتھوں استعمال ہوکر ایک ٹشو پیپر کی طرح پھر کچرے کے ڈبے میں اپنا مقام پائیں گے۔ جس طرح پاکستان نے سویت یونین کے خلاف افغان عوام اور سیاسی پارٹیوں کے دل میں جعلی جہاد اور نفرت بھر دیا تھا جنہوں نے افغانستان پر موجودہ روس کو کافر سمجھ کر افغانستان کو بارود کےڈھیر میں تبدیل کرکے خود کو صدیاں پیچھے دھکیل دیا تھا ان کی آنکھوں سے آج پٹی اتر گئی ہے جب وہ اسی کافر روسی فوجیوں کو اسلام اباد کے جرنیلوں کے ساتھ بغل گیر ہوتے اور پنجابی فوجیوں کے ہمراہ فوجی مشقیں کرتے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ان گمراہ و نادان بلوچوں کے لیے بھی ایک واضع پیغام ہے کہ آج یہ چند ٹکوں کی خاطر بلوچ قومی تحریک کو گروی رکھنے سے آپ کو ذاتی مراعات اور بلٹ پروف گاڑی ضرور میسر ہوگی، لیکن بلوچ تاریخ اور معاشرے میں وہ حقیقی مقام اور رتبے کا ملنا بہت مشکل ہے۔موجودہ قومی آزادی کی تحریک میں ہر وقت افغانستان و بلوچستان نے ایک دوسرے کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
دنیا کی ہرجنگ دوسرے قوموں کے لیے سیکھنے اور سمجھنےکا سامان و سبق مہیا کرتا ہے، سابقہ سویت یونین اور پھر نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان نے ایران اور دیگر ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کی قومی طاقت کو منتشر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ انہی پاکستان و ایرانی گٹھ جوڑ سے تحریک کو دور رکھنے کی غرض سےبلوچ رہنما سنگت حیربیار مری نے واضح پالیسیاں متعارف کرائیں۔ آج کچھ نا عاقبت اندیش حلقے بلوچ رہنما کی ایران سے آزادی کےمطالبے کو بغض ، ذاتی ضد و انا میں بلوچ قوم کے وسیع تر قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر مخالفت کررہے ہیں لیکن اگر بلوچ قوم نے آگے بڑھ کر اپنے حقیقی قائد کے اس ہمہ گیر پالیسی (متحدہ و آزاد بلوچستان ) کا ساتھ نہیں دیا تو مستقبل میں بلوچ قوم اسی طرح پچھتائیں گے جس طرح چالیس سال بعد آج افغان عوام شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کا ساتھ نہ دے کر پچھتا رہے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کو کل اپنا محسن اور جائے پناہ سمجھا تھا آج وہ بلا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ان کی قومی تباہی کا خاص ذمہ دار ہے آج چند ایک بلوچ پارٹیاں بھی افغان گروہوں کی طرح بہک کر ایران کو جائے پناہ سمجھ کر قومی طاقت کو منتشر کرکے تحریک اور بلوچ قومی بیانیے کو عالمی سطح پر کمزور کرکے نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ بلوچ عوام کو سابق سویت یونین کے وقت افغانوں کی کمزوری اور نااتفاقی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کمزور افغانستان بلوچ تحریک کےلیے بھی خاص کارگر ثابت نہیں ہوا۔ آج ایران و پاکستان دن رات اسی کوشش میں مگن ہیں کہ افغانستان کو داخلی جنگ و بدامنی میں مصروف رکھ کر بلوچ مسلح تنظیموں کو تہران کے اثر رسوخ میں لاکر انہیں سلو پوائزننگ کے ذریعے قومی آزادی کےمطالبے سے دور رکھ کر بلوچوں کے بیچ نظریاتی اختلاف کے بیج بوکر انہیں آپس میں الجھایا جائے تاکہ وہ اپنی پارٹی اور گروہی و شخصی مجبوریوں کی بجا آوری کی دوڑ میں قومی مطالبہ آزادی سے غفلت کا شکار ہو جائے ۔ ہماری قومی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم ایران اور پاکستان کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو کر ہرجگہ بلوچ قوم کا مضبوط وکیل بن کر اپنے قومی کاز کی دفاع کریں تب جاکر دنیا ہمیں ایک مقبوضہ ملک اور متحد قوم کی نظر سے دیکھے گی۔