Homeآرٹیکلزسی پیک، بلوچ کا سیاسی اور معاشی قتل ،تحریر :شے بجار

سی پیک، بلوچ کا سیاسی اور معاشی قتل ،تحریر :شے بجار

(ہمگام کالم )

زیر بحث طویل موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے سے پہلے آئیے چین پاکستان اکنامک کوریڈور پر تھوڑی سی نظر دوڑائیں، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور چین اور پاکستان کے درمیان 22 مئی 2013 کو طے ہونے والا 46 بلین ڈالر پر محیط ایک اقتصادی راہداری ہے جس کو پاکستانی سیاستدان اور تجزیہ نگار ایشیاء میں گیم چینجر سے منسوب کرتے ہیں اور پاکستانی معیشت کیلئے اسے ایک انتہائی اہم منصوبہ تصور کرتے ہیں، نواز شریف حکومت کے دوران اس معاہدے کو سرکاری حلقوں نے خوب سراہا اور اسکے خلاف بولنے والوں کو غداری کے لیبل سے نوازا گیا بلوچ قوم جس کی مرضی و منشاء کے خلاف اکنامک کوریڈور کا منصوبہ بنایا گیا، زیر بحث معاہدے کے بعد چینی صدر کا 2015 کو دورہ پاکستان میں 51 معاہدوں کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے، جن میں اکثر معاہدے سی پیک سے جڑے ہوئے تھے، 13 نومبر 2016 کو ون بیلٹ ون روڑ کو فنکشنل کرنے کا میڈیا میں ڈھونگ رچایا گیا، سرکاری میڈیا کے مطابق چین سے کارگو ٹرکوں کا قافلہ گوادر سے افریقہ بھیجا گیا( دوسری جانب عوامی حلقوں میں یہ بات زبان زد عام تھا کہ یہ کار گو ٹرک پاکستان کے تھے جنہیں چینی بارڈر کے قریب سے گوادر کی جانب روانہ کیا گیا تاکہ باقی دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ انکے لیے سی پیک میں سرمایہ لگانا مکمل معاشی حق میں بہتر ہوگا ، اس سے پہلے عالمی سرمایہ دار گوادر میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں اور بلوچستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے اداروں پر پہلے بھی شدید نوعیت کے حملے ہو چکے ہیں کیونکہ بلوچ قوتیں شروع دن سے اس کوریڈور کو چینی استعماری عزائم سے جوڑتے رہے ہیں ) میڈیا رپورٹس کے مطابق گوادر پورٹ کے منصوبوں پر ایک بلین ڈالر خرچ کئے جائیں گے سی پیک کی توسط سے گوادر میں شروع ہونے والے منصوبے ذیل میں درج ہیں۔

ایسٹ بے ایکسپریس : جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے جو انیس کلومیٹر پر محیط ہائی وے ہے جو گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتا ہے اور اس پر 140 ملین ڈالر لاگت آئیگی۔ ایسٹ بے کی شروعات میں ساحل سمندر پر شکار کرنے والے مقامی لوگوں کو سمندری حدود سے نکلنے کی نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، اس منصوبے کو فعال بنانے کیلئے فوجی جارحیت تیز کر دی گئی ہیں گزشتہ دو ہفتوں سے کئی عام بلوچوں کو گوادر اور قرب و جوار کے علاقوں سے جبری طور پر اغوا کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری سے پہلے چین نے باقاعدہ طور پر یہی بات کہی تھی کہ کوریڈور کے سامنے مستقبل میں جو بھی رکاوٹیں حائل ہونے والی ہیں انہیں کسی بھی صورت ہٹایا جائے اور پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے اسی کام میں لگا ہوا ہے.

گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ : یہ منصوبہ گوادر سے چھبیس کلومیٹر کے فاصلے پر گرانڈانی کے مقام پر بنایا جا رہا ہے اور اس پر 230 ملین ڈالر لاگت آئے گی، اس ایئرپورٹ کیلئے حکومت بلوچستان کی جانب سے 4000 ایکڑ اراضی مختص کئے گئے ہیں اور تین سال کی مدت تک یہ ایئرپورٹ فنکشنل کیا جائیگا، ائیر پورٹ کی مدد سے پاکستان اور چین اپنے سامراجی عزائم کو آسانی سے حاصل کر سکتی ہیں اور تیسری قوتوں کی آمدورفت کو آسانی سے یقینی بنا سکتے ہیں.اگر ان منصوبوں کو فعال ہونے کیلئے موقع دیا گیا۔ 300 بیڈ پر مشتمل ایک ہسپتال بھی بنایا جائے گا اور اسی نوعیت کے اور بھی بہت سے منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن کی شنید ابھی تک نظر نہیں آتا۔گوادر پورٹ کو اپگریڈ کیا جائے گا اور ماسٹر پلان کے ذریعے گوادر کو جدید طرز کے مطابق ڈیکوریٹ کیا جائے گا سرکاری دعوؤں کے مطابق۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جس پر بحیثیت ایک سیاسی ورکر قلم آزمائی کی کوشش کی ہے۔پاکستان چین اکنامک کوریڈور اکیسویں صدی کا ایک ایسا سامراجی استحصالی منصوبہ ہے جس کی تباہی سے بلوچ سمیت دیگر اقوام بھی نہیں بچ سکتے ہیں۔ چین جو بیسویں صدی کے آخر تک سوشلزم کا داعی مانا جاتا تھا، سوویت یونین کی انہدام کے بعد باقاعدہ طور دنیا پر اپنی مضبوط گرفت حاصل کرنے کے لیئے مختلف سامراجی منصوبوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت کر رہی ہے اور اب گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بلوچ خطے میں جاری انسانی نسل کشی میں براہ راست شریک ہو گیا ہے، اکنامک کوریڈور دوہزار تیرہ کو پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والا ایک ایسا استحصالی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے بلوچ ساحل سمندر بلاشرکت غیرے چین کو دیا گیا جس کے بدلے چین پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو بیساکھی دے گا۔بلوچ جو گزشتہ ستر سالوں سے اپنی قومی آزادی کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، آج چینی سفاکیت کا بھی نشانہ بن رہے ہیں، چین پاکستانی توسط سے سمندری راستوں کو اپنی معاشی اور فوجی نقل و عمل کیلئے استعمال کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، دنیا میں ابھرتی ہوئی قومی تحریکوں سے پیشگی نبرد آزما ہونے کیلئے چین اپنی استعماری عزائم کو حاصل کرنے کیلئے براہ راست بلوچ سرزمین کو استعمال میں لائے گا،

سی پیک اور اس سے منسلک منصوبوں کے ذریعے بلوچ قوم کو انکی اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے پاکستان اور اس کے باجگزار ملک چین کا دیرینہ خواہش رہا ہے، جس کی اظہار پاکستانی وزارت عظمیٰ میں رہنے والے شوکت عزیز نے دوہزار دو کو کیا تھا کہ گوادر پورٹ کے منصوبے کے اختتام پر 2.5 ملین باہر کے لوگوں کو گوادر میں بسایا جائے گا جس کی شروعات اُسی وقت کیا گیا مگر بلوچ قومی تحریک آزادی سے منسلک سیاسی و عسکری قوتوں نے ان سامراجی عزائم کو خاک میں ملا دیا، اور اب کی بار پاکستان چینی مدد و کمک سے اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، سی پیک کے سیکیورٹی کے نام پر بلوچستان میں ایک بریگیڈ قائم کیا گیا ہے، سی پیک کے راستے میں پڑنے والے بلوچ آبادیوں کو زبردستی اٹھایا جا رہا ہے، گوادر سے لیکر تربت، آواران، پنجگور، خاران، خضدار، مستونگ سمیت بلوچستان کے ایک بھی علاقہ پاکستانی غضب سے نہیں بچ سکا ہے، بلوچستان میں جوانوں سے لیکر بچوں، بوڑھوں اور خواتین بھی پاکستانی ریاستی استعماریت سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ تربت فوجی کیمپ کو اپگریڈ کر کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو سارے علاقے کو مانیٹر کر رہے ہیں مکران ریجن کو مکمل فوجی محاصرہ میں لیا گیا ہے جبری گمشدگیاں روز کا معمول بن چکا ہے، تعلیمی ادارے نیم فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہے ہیں جس سے بلوچ نوجوان نسل ذہنی کوفت اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں، ترقی کے نام پر بلوچوں کا مکمل گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اس کا اظہار بلوچ تجزیہ نگار اور غیرجانبدار دانشور بارہا کر چکے ہیں اور گزشتہ دن بلوچ دانشور انور ساجدی نے خود اعتراف کیا تھا کہ “بلوچستان کی ساحلی پٹی سیکیورٹی پٹی تو بن سکتی ہے لیکن اقتصادی پٹی بننا مشکل ہے” ساجدی صاحب مفید کہتے ہیں کہ گزشتہ ادوار میں گوادر پورٹ سنگاپور کو دیا گیا جس سے سیاسی قوتوں میں اتنی بے چینی نہیں دیکھی گئی مگر جب چین نے یہاں سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تو بلوچ قوم پرستوں سمیت باقی دنیا بھی تشویش میں مبتلا ہو گئی کیونکہ دنیا چین کے توسیع پسندانہ عزائم سے بخوبی واقف ہے جس چین کا خواب چیئرمین ماؤزے تنگ نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اسی لیے آج چین محکوم قوموں کو دیوار سے لگانے کی سازشوں میں براہ راست شریک ہے جس میں محکومیت کا شکار وہ خود بھی رہ چکے ہیں.

پاکستانی معیشت موجودہ دور میں کسمہ پرسی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس کا اعتراف خود نومنتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان کر چکے ہیں گزشتہ روز اپنے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی حکومت میں آتے ہی معاشی بحران اپنے انتہا کو پہنچا ہے اب عمران خان کی حکومت ریاست کی گرتی ہوئی معاشی دیوار کو بچانے کی خاطر براہ راست بلوچ قدرتی ساحل وساہل کو بروئے کار لائے گی، چاہے پی ٹی آئی کی حکومت کو بلوچ شناخت ہی ختم کرنی پڑے.

سی پیک میں سعودی عرب کی شراکت داری :17 اکتوبر 2015 کو پاکستانی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے سرکاری دورے پر سعودی عرب گئے تھے جہاں سی پیک کے حوالے سے سعودی اعلیٰ عہدیداروں سے ان کی ملاقات ہوئی تھی اور بعد میں میڈیا رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے سی پیک منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور اس میں شراکت داری کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ نئے پاکستان کا رٹا لگانے والے پی ٹی آئی حکومت کے آتے ہی سی پیک میں نئے شراکت داروں کیلئے نئی طاقتوں کی توجہ مبذول کرائی گئی، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی باقاعدہ تین روزہ دورے پر سعودی عرب چلے گئے اور کچھ دنوں بعد میڈیا میں سعودی عرب کی حکومت سی پیک میں شراکت داری پر گرما گرم تجزیے اور تبصرے زیر بحث رہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی گرتی ہوئی معیشت کو بچانے کیلئے دوسرے ملکوں کو اس متنازعہ منصوبے میں دھکیل رہی ہے، پاکستان گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ قدرتی وسائل گیس، تیل، سنگ مر مر، کرومائیٹ، کوئلے کے وسیع ذخائر اور سائل سمندر کو بیدردی سے لوٹ رہا ہے مگر اب کی بار اس معاشی قتل میں باقی ملکوں کو شریک کیا جا رہا ہے، سعودی عرب کو اس معاملے میں سوچ سمجھ کر دور اندیشی سے فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ مستقبل قریب میں سعودی عرب کو بلوچ سرزمین پر کسی بھی سامراجی منصوبے کے خلاف بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح پاکستان اور چین کو کرنا پڑ رہا ہے اور اس کا برملا اظہار آزادی پسند قوتیں کر چکے ہیں، اور اپنے تحفظات کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً میڈیا کی توسط سے کر رہے ہیں۔

چین کے سامراجی عزائم:
جنگ عظیم دوئم کے بعد طاقت کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے دنیا میں ایک نئے کھیل کی شروعات کیا گیا، ظالم اقوام نے زیر دست اقوام کو معاشی اور سیاسی حوالے سے محکوم کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کے منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوا، سوشلسٹ ریپبلک آف روس کے انہدام کے بعد دوسری قوتوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا جس میں سرفہرست چین اور انڈیا ہیں، چین افریقی، ایشیائی، اور یورپی منڈیوں تک رسائی، درآمدات اور برآمدات کیلئے سمندری راستوں کی تلاش اور دوسری طاقتوں کا گھیرا تنگ کرنے کیلئے بلوچستان کو بطور فوجی بیس استعمال کرنے کی نیت سے پاکستان کے ساتھ مختلف نوعیت کے معاہدات پر کام کر رہا ہے، چین اقتصادی راہداری کے نام پر ایشیائی ممالک کے قدرتی وسائل اور فوجی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے راستوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کیلئے پاکستان جیسے کمزور اور بدنام زمانہ دہشت گرد ملک سے معاہدات کر رہا ہے، آبنائے ہرمز جو گوادر بندرگاہ سے تیس میل فاصلے پر ہے اور یہاں سے دنیا کی چالیس فیصد تیل کی برآمدات ہوتی ہے، اس سمندری روٹ کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے گوادر بندرگاہ کو قبضہ کرنا چین کے اولین انٹرسٹ میں سے ایک ہےجس پر سب کے خدشات کے باوجود چین اس پر عمل پیرا ہے، چین گزشتہ ادوار میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے معاہدات کر چکا ہے جس کے منفی اثرات دنیا دیکھ چکی ہے اب کی بار چین گوادر میں سرمایہ کاری سے ایک خطرناک کھیل کھیلنے جا رہا ہے جس کے براہ راست اثرات امریکہ، انڈیا سمیت دیگر ممالک پر مرتب ہونگے۔ جس طرح عالمی دنیا متاثر ہو گی اسی طرح خطہ بلوچ بھی اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوگی اور اس کے ممکنہ اثرات دکھائی دے رہے ہیں بلوچ سرزمین کو ان کے حقیقی فرزندوں کیلئے تنگ کیا گیا ہے نوے فیصد سے زائد گوادر کے زمینوں کو پنجابی سرمایہ کاروں اور فوجی افسران کو انتہائی کم قیمت میں الاٹ کیا گیا ہے، کسی دوست کی توسط سے اطلاع ملی کہ اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران ایک پنجابی سرمایہ دار سے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے گفت و شنید سے پتہ چلا کہ اسکے پچاس ایکڑ زمین گوادر میں ہیں، اور اپنے قریبی فوجی رشتہ داروں کے توسط سے اس نے یہ زمینیں گوادر کے مقامی اور غریب عوام سے خرید لیئے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور اس کے باجگزار کس طرح سادہ لوح بلوچ عوام کو ترقی کے نام پر بھلی کی بکری بنا رہے ہیں، سی پیک کے سیکیورٹی کے نام پر فوجی آپریشن، لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے،صدیوں سے آباد گوادر کے عوام کا ذریعہ معاش ماہیگیری سے وابسطہ رہا ہے حال ہی میں سی پیک سے منسلک ایک پروجیکٹ ایسٹ بے ایکسپریس وے کی شروعات کرکے ساحل سمندر پر جانے والے بلوچ ماہیگیروں کو ان کے سمندر سے بیدخل کیا جا رہا ہے دیمی زر جہاں سے مقامی بلوچ شکار کیلئے سمندر کا رخ کرتے ہیں اسے ایسٹ بے ایکسپریس کی تعمیر کیلئے مقامی بلوچوں سے چھینا جا رہا ہے جو ساحل سمندر میں جانے کا واحد راستہ ہے، اُس کے خلاف گوادر کے مقامی بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں جن کو کوئی سننے والا بھی نہیں ہے، گوادر کو دبئی بنانے کے دعوے کرنے والے بھی گوادر کے عوام سے کئے گئے وعدوں سے بری طرح مکر گئے ہیں انکو بھی بخوبی علم ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور مقامی لوگوں کو ماسوائے تباہی اور بربادی کےکچھ نہیں دینے والا،اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین اکنامک کوریڈور کے توسط سے بلوچ سرزمین پر خطرناک سامراجی منصوبوں کا آغاز بہت پہلے کر چکے ہیں اور اس کا اظہار بلوچ قوم پرست جماعت بارہا کر چکے ہیں، پاکستانی بکے ہوئے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو باقاعدہ طور پر ٹاسک دیا گیا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے عوامی حلقوں میں پروپیگنڈہ کرکے اسے بلوچ مفاد میں ظاہر کرے جس طرح آجکل ایسا ہی کیا جا رہا ہے مگر بلوچ قوم سمیت عالمی برادری خود دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سی پیک کی توسط سے چین اور پاکستان دنیا کے گھیرے کو تنگ کر رہے ہیں اسی لیے عالمی دنیا کو چینی اور پاکستانی توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔بلوچ سیاسی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ عوامی حلقوں میں سی پیک کے منفی اثرات کے حوالے سے باقاعدہ سیاسی پروگرامز کا انعقاد کرکے عوام کو سی پیک کے بلوچ سرزمین پر نقصانات سے آگاہ کریں۔ان تمام چیزوں کو ایک مشترکہ بلوچ سیاسی قوت ہی روک سکتی ہے جو مشترکہ و منظم قومی پالیسیز بنا کر ان سامراجی منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے دیرپا حکمت عملی ترتیب دیں، بکھری ہوئی قومیں تباہی کی نہج تک پہنچ جاتی ہیں تقسیم در تقسیم قوموں کو ماسوائے فنا ہونے کے اور کچھ نہیں دے سکتا اسی لیے بلوچ قومی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ زبانی کلامی اور اخباری بیانات سے آگے نکل کر عملی اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس نازک دور میں بلوچ تحریک مزید آپسی انتشار کا شکار ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں لانے کیلئے ان تمام مسائل کے سدباب اور حل ہم نے ہی تلاش کرنے ہیں.

Exit mobile version