ہمگام تربیتی سیریز : قسط 1
زمانہ جاہلیت میں مظلوم اقوام کی زمین پر قبضہ کرنے والے جابر اقوام و حُکمران انہیں بڑی آسانی سے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ وہ خُدا یا دیوتاؤں کے بھیجے ہوئے عقلمند اور قابل حُکمران و قاصد ہیں، اور خُدا یا دیوتاؤں کے حُکم سے ان پر مسلط ہوئے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا کہ محکوم و مظلوم اقوام کے افراد خُدا یا دیوتاؤں کے خلاف انہیں چیلنج نہ کریں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ محکوم اقوام کو اس ڈرامے کی سمجھ آتی گئی۔ اور خدا یا دیوتاؤں کی پشت پناہی کی متھ ختم ہوتی چلی گئی، تو سامراجی اقوام نے سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے وسائل کی لوٹ کھسوٹ و مارکیٹ پر تسلط جمانے کی غرض سے اقوام اور ان کی سرزمین پر قبضے کرنا شروع کردئیے۔
سامراج کا یہ کھیل پندرھویں صدی سے لیکر تاحال جاری و ساری ہے۔ موجودہ دور میں اس سامراجی حربے کی وجہ سے تمام دنیا میں ایک قومی کش مکش برپا ہے۔ قبضہ گیری کے اس تمام عمل میں جابر و سامراجی اقوام کو موقع پرست و چاپلوس افراد کی حمایت و کمک حاصل رہی ہے، اور موجودہ دور میں بھی حاصل ہے ۔ چاپلوس و موقع پرستوں نے اپنی انہیں خدمات کے صلے میں سامراج سے مفادات و مراعات بھی حاصل کی ہیں ۔ کالونیل ایجنٹ پنجابی نے بھی اسی طرح کی سامراجی خدمات کے صلے میں پاکستان حاصل کیا۔
قوموں کی نفسیات کا علم یعنی ” علم النفس ” کے ماہرین میں دو معتبرترین نام فرانس کے ڈاکٹر گسٹاؤلی بان اور مسلم مفکر و تاریخ دان علامہ ابن خلدون کے ہیں۔ ان دانشوروں نے دنیا کے قوموں کی نظامِ اخلاق کا مطالعہ کیا ان کے تاریخ و تمدن پہ گہری مشاہداتی نگاہ ڈالی اور ایک جدید ”فلسفہ تاریخ ” کی بنیاد رکھ دی۔ ان کی تخلیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ “جس طرح ہر شخص میں ایک مخصوص روح ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اپنے تمام ذاتی کام انجام دیتا ہے بالکل اسی طرح ہر قوم کے قالب میں بھی ایک خاص روح ہوتی ہے ۔ اس کے مخصوص اخلاق اور خواص ہوتے ہیں علم و مذہب تہذیب و تمدن ملک و سلطنت اور قوانین نفسی ہر قوم کا سرمایہ حیات ہیں۔ انہی چیزوں کی ترکیب و امتزاج سے ہر قوم کی تاریخی و نفسی مواد تیار ہوتا ہے ۔ اور اخلاق ہی قوموں کے مزاجِ عقلی کو پیدا کرسکتا ہے ۔ یہی مزاج عقلی ہر قوم کی تاریخ کا ماخذ ہے اس سے مدبرین کو راہِ ہدایت ملتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہر قوم میں چند اوصاف ایسے پائے جاتے ہیں جو ناقابل تغیر و تبدیل ہیں۔
ڈاکٹر گسٹاؤلی بان اس سلسلے میں مزید اضافہ کرتا ہے کہ ” یہ اوصاف و خصوصیات قوموں میں جن اسباب کی بناء پر پیدا ہوتی ہیں یا نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں ان میں آباؤاجداد کا اثر، خاندان کا اثر، جغرافیانہ ،حدود آب و ہوا اور گرد و پیش کی چیزوں کے اثرات قابلِ ذکر ہیں اس بات کا قرآن مجید میں بھی بار بار ذکر آیا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے “وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا ہی کرتے پایا وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو جس روش پر پایا وہ ہمارے لیئے کافی ہے وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کو جس روش پر پایا ہم اسی کی تقلید کرتے ہیں”۔
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دیگر ماہرین، محقیقین و دانشوروں کا بھی یہی خیال ہے کہ ماضی کی صیح تحقیق وتشکیل اور قومی نفسیات کے مطالعہ و مشاہدہ کسی بھی معاشرہ میں بسنے والے اقوام کو سامراجی نفسیات اور مختلف معاشروں میں موجود چاپلوس و موقع پرست افراد کی خصلت و سامراجی تسلط کے ہتھکنڈوں کا عکس دکھا سکتی ہے۔
مندرجہ بالاحقائق کی روشنی میں اگر ہم بلوچ قوم اور پنجابی کی ماضی کا جائزہ لیں ان کی قومی نفسیات کا مشاہدہ کریں ان کی تاریخ و تمدن کا مطالعہ کریں ان کے نظامِ و اخلاق یعنی اوصاف و خصائل پہ ایک نظر ڈالیں اور بلوچ قوم کا پنجابی کی نوآبادی بننے کی تاریخ کو دھرائیں تو بڑی آسانی سے ان سوالات کا ادراک کرلیں گے کہ
کیا بلوچ نے اپنی مرضی سے اس کالونیل ایجنٹ پنجابی کی غلامی کو قبول ہوئے پاکستان اور وراثت پس ملی اس کے کالونیل نظام میں شامل ہوا  اگر نہیں تو پھر وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے بلوچ ریاست کو اس کالونیل ایجنٹ پنجابی کو سامراج کی جانب سے وراثت میں پاکستان کے جھوٹ پر مبنی اس کالونیل نظام میں پنجابی کے ساتھ کسی بھی طرح کے شرائط پر ایک یونین میں رہ سکتا ہے ؟ ان سوالات کے جواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم پنجابی کی ماضی کا جائزہ لیں تاکہ اس کے معاشرتی نفسیات قومی مزاج اور خصلتوں کو سمجھ سکیں اور اس کے پس منظر میں پنجابی کی حیثیت و حقیقت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس عالمی تغیر و تبدل کے دور میں بلوچ کے مستقبل کی راہ متعین کرسکیں ۔
خود پنجابی دانشوروں نے ڈاکٹر مبارک علی کی زیر ادارت شائع ہونے والی سہ مائی “تاریخ” کے پنجاب نمبر میں اپنی تحریروں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پنجابی سنجیدگی و گہرائی سے نابلد شیخی باز، موقع پرست، مزاحمت کے جذبے سے عاری، چاپلوس و عیار قوم ہے۔
اس طرح اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں احمد ندیم قاسمی بڑے غمزدہ انداز میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ افسوس ماسوائے دُلا بھٹی و رائے احمد خان کھرل کے ہمارا کوئی مزاحمتی ہیرو نہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجابی کی خصلت میں چاپلوسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اسی بناء پر مہا بھارت سے لیکر پانی پت کی لڑائیوں تک پنجابی سرزمین شمال سے جنوب کی جانب حملہ آوروں کیلئے گذرگاہ کا کام دیتی رہی۔ پنجابی نے اپنی چاپلوسانہ و موقع پرستانہ خصلت کی وجہ سے اپنے مفادات کے تحت فائدہ اٹھاتے ہوئے ان حملہ آوروں کو کوہ ہندوکش کے سنگلاخ دروں اور دہلی و آگرہ کے تخت و طاؤس کی جانب راہ دکھائی ہے۔ یعنی اس تمام عرصے میں پنجابی قوم کا تاریخی کردار یہ رہا ہے کہ اس نے حملہ آوروں کی توپیں کھینچ کر دہلی اور آگرہ تک پہنچائی ہیں۔ اپنی سرزمین پر حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی بجائے ان کی خوف و بھگت و ہر طرح سے ان کی دلجوئی کی ہے جبکہ ان حملہ آوروں کی نظریں دہلی و آگرہ کی زر و جواہر پر لگی ہوئی تھیں ۔
اس کی بنیادی وجہ پنجابی قوم کی وہ قدیمی و بنیادی نفسیات ہے جس کا ذکر تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے ۔ پنجابی کے اس تاریخی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ایک پنجابی محقق اشفاق سلیم مرزا اپنے تحقیقی مقالہ ” پنجاب کے قدیم باشندے ” میں لکھتا ہے پنجابی کی تاریخ کی کہانی بھی عجیب ہے کیونکہ ماہرین بشریات و نسلیات ابھی تک اس سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اور ہم خود بھی جونہی اپنی جڑوں کو تلاش کرتے ہیں تو اپنی شناخت کے حوالے سے یہ ہمارے لئے تذلیل کا باعث بنتا ہےکیونکہ ہماری شجر و نسب و جڑوں کی تلاش کے نتائج کچھ اچھے نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں ہم ”رگ وید” کا مطالعہ کریں تو اس میں ہمیں بہت سے ایسے پیرائے ملیں گے جن میں پنجابیوں کو زبان مذہب اور شکل و شباہت کے لحاظ سے آریاؤں سے الگ “داس” یا “داسو” بتایا گیا ہے گرس ولڈ کا کہنا ہے کہ “داس یا داسو پنجاب کے قدیم ترین باشندے اور موجودہ پنجابیوں کے جدِ امجد تھے”۔
دو ہزار سال قبل مسیح میں جب آریائی لوگ اِرد گرد کے علاقوں میں پھیلتے ہوئے پنجاب میں وارد ہوئے تو انہوں نے داسوں سے نفرت کا اظہار کیا کیونکہ داسوں کی طرزِ معاشرت بری خصلتیں، موقع پرستی اور روایات انتہائی حقارت آمیز تھے “رگ و ید” آریاؤں کی قدیم کتاب ہے جو کہ بر صغیر میں قدیم ترین و محفوظ ترین دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جسے ہندومت میں الہامی کتاب کا مقام بھی حاصل ہے اس کتاب میں چار ہزار سال قبل کے حالات، واقعات و کیفیات کی عکاسی کی گئی ہے اس کتاب میں اکثر جگہوں پر “داسوں” کا ذکر ان الفاظ میں ہے “سیاہ رنگت کے یہ اناس ( بغیر ناک والے یعنی بے شرم ) شیطان صفت، موقع پرست، بُری زبان بولنے والے، لنگم کی پرستش کرنے والے افراد پر مشتمل تھے۔
سنسکرت زبان میں تجارتی لین دین، مول، اجرت اور سکے کو “پن” کہتے ہیں اسی نسبت سے تجارتی اجناس کو پنیہ کہا جاتا ہے قدیم زمانے میں داس یا داسو اپنے تجارت پیشہ افراد کو ”پنی” کہتے تھے ( جو غالباً بعد میں پنجابی کی وجہ تسمیہ بن گیا ) مہا بھارت اور یونانی مورخین کے ہاں داسو اور ان کے اس تجارتی طبقے پنی کے بارے میں ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ یہ موقع پرست لالچی اور پیشہ ور لوگ ہیں ان کی عورتیں عریاں حالت میں گلے میں پھولوں کا ہار ڈالے گلیوں اور کھیتوں میں گھومتی ہیں اور گھوڑوں کی طرح ہنہتاتی ہوئی حماموں کی طرف بھاگتی ہیں۔
اسی طرح “مد یا مدرا ” قبائل کا تعلق بھی داسوؤں سے تھا۔ جن کا مرکزی شہر سا کلا یعنی موجودہ سیالکوٹ تھا۔ اب کا ذکر مہا بھارت اور یونانی مورخین کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے “عورتیں خوبصورت اور الہڑ تھیں جن کی صحبت کی داستانیں نہ صرف محدود علاقے بلکہ اردگرد کی ریاستوں میں دور دراز تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ کندھوں پر ایک کمبل نما چادر اُوڑھتیں وہ پاکباز نہیں بے شرم تھیں۔ ردانہ صرف اپنی عورتوں کے ذریعے طاقتور اقوام کے افراد اور بیرونی حملہ آوروں کو پھانس کر اپنا مطلب نکالتے بلکہ گھروں میں ماں باپ، بیٹے بیٹیوں، سالے سالیاں، راشتہ دار، داماد، دوست اور مہمان ایک دوسرے کے ساتھ آذادانہ میل ملاپ کرتے۔ “تاریخ پنجاب” سید محمد لطیف کی پنجاب کی تاریخ پر لکھی گئی وہ کتاب ہے جو نہ صرف پنجاب کی تعلیمی نصاب میں شامل ہے بلکہ اس کو واحد مستند تاریخی تحقیق شمار کیا جاتا ہے اس میں بھی مندرجہ بالا باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔