ہمگام تربیتی سیریز : قسط 2
گزشتہ سے پیوستہ
پنجابی نے تاریخ کی ہر موڑ پر حملہ آوروں کو خوش آمدید کہا ہے، اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی بھی کی ہے۔ اس لئے پنجابی نسل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ انواع و اقسام کی نسلوں پر مشتمل ہے۔ مختلف نسلوں کا خون اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ ڈاہیا اپنی تحقیق کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ پنجائی قبائل راجپوت، جاٹ، گوجر اور آہیر وسط ایشیا کے حملہ آوروں کے ساتھ ملاپ کا نتیجہ ہیں۔ چونکہ پنجابی نے ان بیرونی حملہ آوروں کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ خدمت گزاری میں ان حدوں کو بھی پار کیا کہ یہ حملہ آور عرصہ دراز تک پنجاب میں سکونت پزیر رہے۔ شائد اسی بات کو سامنے رکھ کر اشفاق سلیم مرزا نے اپنے مقالہ پنجاب کے قدیم باشندے کی تمہید لکھی ہے کہ پنجاب کے کسی بھی بڑے شہر میں اگر کوئی اجنبی کسی بارونق چوراہے پر کھڑے ہوکر آتے جاتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالے تو وہ جگہ ایک تماشا گاہ دکھائی دے گی۔ ہر رنگ و جسمانی ساخت کے انسان وہاں نظر آئیں گے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ 2 ء میں ساکا قبائل نے پنجاب کا رخ کیا تو پنجاب کے باسیوں نے ان کے خلاف مزاحمت کرنے کی بجائے ان کی اتنی آؤوبھگت کی کہ آگے بڑھنے کی بجائے ان کی اکثریت نے پنجاب کے مغربی علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
جرنیلی سڑک جو کابُل کر دہلی سے منسلک کرتی تھی پنجاب کے وادی گنگا سے ہوکر پنجاب کے دیگر علاقوں سے گزرتی تھی، جو بیرونی حملہ آوروں کیلئے گزرگاہ اور پنجابی کیلئے آمدن کا ذریعہ تھی سکندر اعظم کے لشکر نے اسی گزرگاہ سے گزر کر مختلف علاقوں کو تاخت و تاراج کیا اس رہ گزر پہ پنجاب کے تجارتی مراکز اٹک، جہلم اور گُجرات کے باشندوں نے ان کی نہ صرف آگے بڑھنے میں رہنمائی کی بلکہ ان کی آؤوبھگت بھی خوب کی گیارھویں صدی میں غزنوی حکمرانوں نے لاہور کو اس لیئے اپنا دارالسلطنت بنایا کہ اس علاقے کے باشندے انتہائی طابع فرمان تھے۔ یہاں ہر قسم کا سامان تعیش بھی میسر تھا۔ لاہور کو اکبر جہانگیر اور شاہ جہان کے دور میں انتہائی عروج حاصل ہوا یہاں ان حکمرانوں کی دلجوئی کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے باشندے اپنے موقع پرستانہ خصلت کی بنیاد پر نہایت فرمانبردار تھے۔ اکبر نے 1584 سے 1598 تک افغانستان اور کشمیر پر فوج کشی کی مقصد سے لاہور میں دربار منعقد کی۔ جہانگیر 1622 سے تادمِ مرگ لاہور میں قیام پزیر رہا۔ شاہجہان نے بھی اپنی عیاشیوں کیلئے 1642 میں لاہور میں شالا مار باغ کی تعمیر شروع کی۔
1821 سے رنجیت سنگھ کی سربراہی میں سکھوں نے اپنی حکومت قائم کی۔ باقی پنجابی، سکھ پنجابیوں کی اس حکومت سے ناخوش تھے۔ اسی لئے 1849 میں انگریزوں کی پنجاب کو فتح کرنے سے باقی کے پنجابیوں کو انتہائی خوشی حاصل ہوئی۔ انہوں نے جی و جان سے انگریزوں کو خوش آمدید کہا ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ انگریزوں کی پنجاب کو فتح کرنے کے بعد پنجاب ان کا سب سے وفادار صوبہ بن گیا۔
انگریزوں کی دورِ حکمرانی پر پنجاب میں انگریزوں کے نمائندہ آئین ٹالبوٹ (Ian talbot) نے ایک کتاب
” punjab and the raj “
(1849 تا 1947 ) لکھا ہے ۔ جس میں تفصیل سے پنجابیوں کی وفاداری کا ذکر موجود ہے وہ لکھتا ہے انگریز سمندری راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے، بنگال، مدراس اور بمبئی کے بعد 1841 سے 1849 کے درمیانی عرصے میں سکھوں سے لڑائیوں کے بعد پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ تو اہلِ پنجاب نے جشن منا کر انگریزوں کو خوش آمدید کہا پھر 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران پنجابی کی وفاداری نے انگریزوں کے دلوں میں پنجابی پر اعتماد میں اس قدر اضافہ کردیا کہ وہ انگریز کیلئے اب سے بڑے وفادار و ایجنٹ بن گئے۔ دوسری بات یہ کہ پنجاب اس لیئے بھی انگریزوں کیلئے مزید اہمیت اختیار کرتا چلا گیا کہ یہاں سے انہیں مقامی ایجنٹ بڑی تعداد میں میسر آئے۔ جن پر وہ ہر گھڑی اعتماد کر سکتا تھا۔ انگریزوں کی نو آبادیاتی انتظامیہ کے ساتھ استوار ہوجانے والے اس غیر رسمی تعلق نے بدازاں اداروں کی شکل اختیار کی۔ چنانچہ پہلے تو یہاں انگریزوں کے وفادار سیاسی گروہوں کی تشکیل ہوئی جو بالآخر سیاسی جماعتوں کا روپ اختیار کر گئے۔ ان سیاسی جماعتوں میں تنظیم اور عوامی حمایت کا غیر معمولی فقدان تھا ۔ پھر 1923 میں اس نے یونینیسٹ پارٹی کی شکل میں ایک با قاعدہ سیاسی جماعت کا روپ اختیار کیا۔ جو فضل حسین کی سربراہی میں برطانوی حکومت کے وفادار زمینداروں پر مشتمل تھی۔ یونینیسٹ پارٹی کو انگریزوں نے اتنی قوت بخشی کہ یہ بیس سال تک صوبے کی سیاست پر چھائی رہی 1923 سے 1939 تک یونینیسٹ پارٹی نے انگریزوں کو دیہات میں سماجی کنٹرول کو برقرار رکھنے میں مدد دی اور امراج کے خلاف اُبھرنے والے تناؤ کو بڑھنے نہ دیا۔
پھر جب انگریز نے مسلم لیگ بنا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو پنجابی 1944 سے جوق در جوق اس میں اسلئے شامل ہوئے کہ انگریزوں کے منصوبے کے تحت مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان ان کی پنجابی اسٹیٹ کی منزل تھی۔ اس لیئے 1946 میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت عام انتخابات میں پونینسٹ پارٹی کو نہ صرف شکست سے دوچار کردیا گیا بلکہ اس پارٹی کو پنجابیوں نے ختم کردیا۔ اسی دن سے ہی پنجاب کو مستقبل کے پاکستان کا دل قرار دیا جانے لگا بلکہ جناح نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پنجاب ہی پاکستان کا بنیادی پھتر ہے۔
1857 کے بعد پنجاب انگریز حکوممت کا اتنا مطیع و فرمانبردار رہا کہ ہندوستان کے دیگر علاقے کھلے عام صدائے احتجاج اور باغیانہ رویوں کے امین رہے جبکہ پنجاب کی فرمان برداری اس قدر تھی کہ یہ خطہ انگریزوں کے ہندوستانی فوج کا گھر اور عیاشیوں کا اڈہ بن گئی۔ انگریزوں کو اپنی فوج کیلئے موزوں ترین رنگروٹ (recruits) یہیں سے میسر آئی پنجابیوں کی غالب اکثریت پر مشتمل اس رضا کار فوج نے وسیع استعماری مفادات کی تکمیل کیلئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں جس کے نتیجے میں نہ صرف ہندوستان میں برطانوی راج کو استحکام حاصل ہوا بلکہ مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں انگریز اثررسوخ کی ترویج میں بھی اس فوج نے مرکزی کردار ادا کیا۔
امیر شریعت حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری
کی کتاب سلطعہ سے ایک نظم پنجاب کے بارے میں
نہ دیدم کشورے مردعود و مرتاب : میں نے ایسی مردود اور لعنتی زمین کہیں نہیں دیکھی
بشو مسیہائے کفر آباد پنجاب : جیسی کہ نحوستوں اور کفر سے بھری ہوئی زمین پنجاب کی ہے
چہ ملکے ننگ عارہفت کشور : یہ کیا ملک ہے سات براعظموں کا ننگ و عار ہے
زشرق و غرب بادش خاک بر سر : مشرق و مغرب کی خاک اس سر پر پڑے
خمیر طینتش مردم کشیہا : اس کی مٹی کا خمیر انسانوں کا قتل عام ہے
زقتل مسلمین باشد خوشیہا : مسلمانوں کے قتل عام میں بھی پنجاب کی خوشی ہے
چہ پیرانش میدان فرنگی : پنجاب کے پیر فرنگیوں کے مرید ہیں
لقب کا فور ذات پاک زنگی : یہ باہر سے اجلے اجلے ہیں لیکن اندر سے کالے ہیں
زنوب و رئیسانش چہ پرسی : پنجاب کے بڑے لوگوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو
سگ و سگ زادگاں کرسی بہ کرسی : یہ کتوں کی اولاد اور نسل در نسل کتے ہیں
چناں فرزند نا ہموار زید : جیسا کہ پنجابی ولدلزنا پیدا ہوتے ہیں
کہ ازخر قمیتش برتر نیاید : تو انکی قیمت گدھے جتنی بھی نہیں ہوتی
چکر از لالہ اش خون مسلمان : پنجابیوں کے چہرے مسلمانوں کا خون پی کر لال ہیں ۔
از و نالاں حجاز و مصر و ایران : پنجابیوں کی وجہ سے حجاز مقدص ، مصر اور ایران ہم سے ناراض ہیں
جوانانش غلامان فرنگی : پنجاب کے جوان فرنگیوں کے غلام ہیں
پناہ شاں بدامان فرنگی : انکی پناہ گاہ فرنگیوں کے دامن میں ہے
چہ پنجاب آں فرنگی را معسکر : پنجاب کیا ہے ؟ عالمی سامراج کی چھاؤنی ہے
معسکر را غلام احمد پیمبر : اس چھاؤنی کا لیڈر غلام احمد قادیانی ہے
فرنگی را متسکر ہست پنجاب : سامراج کی چھاؤنی پنجاب ہے
ضلالتہ را پیمبر ہست پنجاب : گمراہی کا پیمبر بھی پنجاب ہے
فضائش کفر ریز و کفر بیزست : پنجاب کی فضا کفر بکھیرتی ہے اور کفر اگاتی ہے
بائین الہی درستیز است : پنجاب اللہ کے دین سے ہمیشہ جنگ کرتا آیا ہے
بملک ہند شد ارض الجوایس : برصغیر میں پنجاب ہی جاسوسوں کی سرزمین ہے
نہ جان محفوظ و نے مسوں نرامیس : پنجاب میں نہ جان محفوظ ہے اور نہ ہی عزت محفوظ ہے
زمینے فتنے زائے فتنہ خیزے : پنجاب کی زمین فتنوں کی زمین ہے
کہ شیطان پیش پالیش سجدہ ریزے: پنجاب کے سامنے تو شیطان بھی سجدہ ریز ہے۔
اگر ہم پنجابیوں کیلئے بننے والی ریاست پاکستان کے قیام کا جائزہ لیں تب بہت سی سازشوں سے پردہ اُٹھ جائے گا
1600 میں قائم ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی ” تجارتی سرمایہ داری نظام ” کی پالیسیوں کا ایک حصہ تھی جس کے تحت انگلستانی تجارت کی نظریں ایسی ملکی و غیر ملکی منڈیوں کی تلاش میں رہنے لگیں جہاں سے سستا مال خرید کر دوسرے منڈیوں میں مہنگا فروخت کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں دیگر یورپی تجارتی بھی میدان میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ یورپی تجارتی کمپنیوں کی منڈیوں پر اجارہ داریاں قائم کرنے کے سلسلے میں ڈچ، پرتگیزی، فرانسیسی و برطانوی یورپی اقوام کے مابین زبردست تجارتی و سیاسی کشمکش شروع ہوئی اور یہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگے۔ اس دوران ” تجارتی سرمایہ داریت ” پہ “صنعتی سرمایہ داریت” نے غلبہ پالیا۔ اب مفادات اور استحصالی پالیسیوں میں تبدیلی آئی اور سامراج کی نظریں محکوم و مظلوم اقوام کے علاقوں اور وسائل میں گڑھ گئیں تاکہ صنعتی سرمایہ کاری کیلئے خام مال حاصل کیا جاسکے ۔پرتگال ، اسپین اور ولندیزی اپنے داخلی جاگیرداری نظام اور کھیتولک چرچ سے چمٹے رہنے کی وجہ سے تجارتی، صنعتی و سامراجی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ صرف برطانوی اور فرانسیسی ایک دوسرے سے نبردآزما رہے۔ آخر کار دو سو سالہ جنگ و کشمکش کے بعد 1763 میں انگریز زبردست عالمی طاقت بن کر اُبھرے اسی اثناء میں انگریز نے انڈیا پے اپنا تسلط جمایا۔ 1772 میں وارن ھسٹنگر گورنر جنرل انڈیا بنتے ہی انگریز دانشوروں سے مقامی قانون تاریخ و زبان کا مطالعہ کروایا “لڑاؤ اور حکومت کرو” کی اپنی سامراجی پالیسی کے مطابق ہندوؤں اور مسلمانوں کیلئے الگ الگ قوانین مرتب کروائے۔ اس سے قبل ہندو اور مسلمان آپس میں بنا کسی اختلاف کے باہم اتفاق سے مل کر رہ رہے تھے۔ جن قوتوں سے انگریزوں کو خطرہ تھا ان کو کمزور و منتشر کرنے کیلئے رجعت پرست قوتوں کو بڑھاوا دیا۔ اس طرح آزادی پسند و قوم پرست قوتوں کے مقابلے میں مذہبی بنیاد پرستی واحیاء کی تحریکوں کو متحرک کروایا۔ ہندو مسلم اختلاف و نفرت کے بیج بونے کے ساتھ permanent revenue system قائم کر کے موروثی جاگیرداروں کا ایک طبقہ پیدا کیا انگریزوں کے اس وفادار طبقے نے اپنے ہم وطن آزادی پسندوں اور قومی تحریکوں کو ناکام بنانے کیلئے انگریزوں کی بھر پور مدد کی ۔
اس دوران برطانوی سامراج نے بلوچ سرزمین کا رُخ کرلیا اور 1839 کو اس سرزمین پر قبضہ کر لیا چونکہ بلوچستان جو کہ بر صغیر سے الگ ایک خودمختیار ریاست تھا، یہ بلوچ ریاست اور اس کا ہمسایہ ملک افغانستان دونوں جغرافیائی لحاظ سے انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے نہایت موضوں تھے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ بھی انگریز کے ہاتھوں سے نکل کر تیزی سے ترقی کی جانب گامزن تھا اور روس بھی 1835 سے تیزی سے اپنے فارورڈ پالیسی کے تحت بلوچ سرزمین کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا جس کی نگاہ ساحل بلوچ پر تھی افغان حکومت نے انگریز کی نسبت روس کیلئے اپنی سرحدیں کھول رکھی تھیں ساتھ ہی انگریز کی نظریں چین، روس وسط ایشیا میں بھی لگی ہوئی تھیں۔ یورپ میں خود فرانس برطانیہ کیلئے رکاوٹیں کھڑی کر رہا تھا برصغیر میں 1857 کی جنگ نے بھی انگریز کی آنکھیں کھول دی تھیں اس لئے انگریز نے 1870 میں جسمانی غلامی کی بجائے ذہنی غلامی کی حکمت عملی پہ کام شروع کر دیا۔
جاری ہے۔۔۔